دنیا کے اس ترقی یافتہ گاؤں کا نام ہواسی ہے، جو چین کے مشرقی صوبہ جیانگسو میں واقع ہے۔ اسے دنیا کا امیر ترین گاؤں کہا جاتا ہے۔ اس کے دو ہزار مکینوں میں ہر شخص کے اکاؤنٹ میں ایک ملین یوآن (15 کروڑ پاکستانی روپے) موجود ہیں اور ہر خاندان کو یہاں منتقلی پر حکومت کی طرف سے گاڑی اور بنگلا ملتا ہے، لیکن ایک مسئلہ ہے۔
اگر آپ یہاں سے چھوڑ کر گئے، تو سب کچھ واپس لے لیا جائے گا۔ یہ گاؤں چین کے سب سے بڑے شہر شنگھائی سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر موجود ہے۔ برسوں تک ہواسی کو چین کی کمیونسٹ حکومت کی کامیابی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، جس نے ایک غریب گاؤں کو نصف صدی میں خطے کا سب سے امیر علاقہ بنا دیا۔
شہر کے داخلی دروازے پر لکھا ہے ”آسمان تلے نمبر ایک گاؤں میں خوش آمدید“۔ گاؤں نے 2003ء میں اس وقت بین الاقوامی میڈیا میں جگہ حاصل کی جب یہاں اعلان کیا گیا کہ اس کا سالانہ اقتصادی حجم 100 ارب یوآن تک پہنچ گیا ہے۔
ایک سال بعد ہواسی نے اعلان کیا کہ اس کے مکینوں کی اوسط سالانہ تنخواہ ایک لاکھ 22 ہزار 600 یوآن ہے، جو چین کے دیہی علاقوں کے کسی کسان کی آمدنی سے 40 گنا زیادہ ہے۔ اپنی معاشی طاقت کو ظاہر کرنے کے لیے گاؤں نے تین ارب یوآن کی لاگت سے 2011ء میں اپنی بلند عمارت بنائی، جو 72 منزلہ ہے اور ہواسی کا معلق گاؤں کہلاتی ہے۔
328 میٹر یعنی 1076 فٹ بلندی کے ساتھ یہ ایفل ٹاور سے بھی زیادہ اونچی ہے۔ اس کے اندر ایک فائیو سٹار انٹرنیشنل ہوٹل ہے۔ 826 کمروں کے اس ہوٹل میں ایک جگہ ایسی بھی ہے، جس کا کرایہ ایک رات کے لیے ایک لاکھ یوآن ہے۔ 60 منزل پر موجود اس قیام گاہ کے ساتھ ایک ایسی چیز ہے، جسے دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ بیل کا ایک مجسمہ جو ایک ٹن خالص سونے سے بنایا گیا ہے۔
ہواسی اس مقام تک پہنچا کیسے؟ اس پر اسرار کے پردے پڑے ہوئے ہیں، البتہ ایک کتاب راز سے پردے اٹھاتی ہے، جس کے مطابق 70ء کی دہائی میں گاؤں کی قیادت نے ایک زبردست فیصلہ لیتے ہوئے اپنی تمام زمینوں پر کاشت کاری کا کام ٹھیکے پر دے دیا اور اپنی افرادی قوت کو ابھرتے ہوئے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ڈال دیا، جس کی وجہ سے نہ صرف ہواسی دیگر دیہات اور قصبوں بلکہ شہروں سے بھی آگے نکل گیا۔
1994ء میں گاؤں نے خود کو کمرشل کارپوریشن کے طور پر مستحکم کیا اور مختلف صنعتی شعبہ جات میں قدم رکھا۔ گاؤں نے 1999ء میں خود کو شینڑین سٹاک ایکسچینج میں درج کروا دیا تھا۔ آج اس گاؤں کے زیادہ تر مکین وہی ہیں، جو ان اداروں کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہیں گھر اور گاڑی سمیت بنیادی سہولیات دی جاتی ہیں اور آمدنی کا 30 فیصد حصہ ملتا ہے۔
جبکہ باقی 70 فیصد گاؤں کی کمپنیوں کے لیے سرمائے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔