عالمی دیہات اب ,144 7 بلین سے زیادہ انسانوں کا ہے۔ اجتمائی پہچان کے لئے قومیں اور قبیلے ہیں، انفرادی پہچان کے لیئے مختلف رنگ اور شکلیں ہیں، یہ سب فطرت کی طرف سے خودبخود ہو رہا ہے۔ ذاتی پہچان کو آ سان بنانے کے لیئے نام ہیں جو والدین رکھتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کے نام ایک جیسے ہیں لیکن پہچان میں کہیں کوئی مسلہ نہیں اور نہ ہی کہیں کوئی قانونی پیچیدگی رپورٹ ہوئی ہے۔
عالمی دیہات کے چوہدریوں نے اگر چاہا کہ اب ہر بچے کا نام والدین ان لائین چیک کرکے رجسٹریشن کریں تو یہ کوئی عجیب بات نہ ہوگی والدین اپنی پسند کے نام کو چند منٹوں میں رجسٹر کر لیں گے۔ عالمی دیہات میں ,144 7 بلین سے تجاوز کرتے انسانوں کے وقت کے ضیائع کو روکنے اور تیز تر باہمی رابطے کے لیئے گوگل کے 1000000000 یوزرہیں۔ 75 زبانوں میں 425 ملین جی میل اکاونٹس ہیں۔ یاہومیل کے 800 ملین یوزرما ہانہ ہیں۔ 450 ملین فیس بک یوزر ہیں۔ موبائل فون ہولڈرز 6800000000 سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ای میل ہو یا فیس بک چند منٹ میں اپ اپنا اکاونٹ بناسکتے ہیں۔ ان اداروں کو پوری دنیا کا سامنا ہے۔ اپ اپنے اکاونٹ کیلئے اپنی پسند کا نام لکھیں اور کلک کریں تواپ کو اپنی پسند کے متعلق پوری معلومات فراہم ہو جائے گی۔ اگر نام موجود ہے تو اپ کو آگاہ کر دیا جائے گا اور اگر اس سے پہلے اس نام سے اکاونٹ موجود ہے تو پھر اپ کو تین چا رناموں کی تجویز دی جائے گی۔ تا کہ نام کے حصول اور اکاونٹ بنانے کی مکمل رہنمائی ہو۔ کہیں کوئی روکاوٹ نہیں۔
کرہ ارض کو عالمی دیہات میں بدلنے کا تصور جب کسی نے پیش کیا ہو گا تو نہ جانے سننے والوں پر کیا گزری ہو گی انہوں نے اس کو فاتر عقل قرار دیا ہوگا یا اس کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیئے اپنے اپ کو پیش کرکے اس کی حوصلہ افزائی کی ہوگی۔ عام ادمی کے قیاس میں نہ انے والا ناممکن ٹارگٹ اب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کرمحدود کر رہا ہے۔ یہ ساری ڈیویلپمنٹ، یہ ٹیکنالوجی میں پیش رفت صرف ایک چیز کو بچانے کے لیئے ہو رہی ہے اور وئہ ہے وقت۔وئہ لمحہ موجود کو نہ ماضی میں ڈھلنے سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی ماضی کو حال میںبدل سکتے ہیں۔ان کے پاس و قت کا کوئی متبادل نہیں۔ اس بے بسی میں انہوں نے وقت کو دنیا کی سب سے بڑی دولت مان لیا ہے۔ انہوں نے اپنی ساری توانائیاں وقت کے ضیائع کو روکنے پر لگا رکھی ہیں۔
کتا ب لاریب کی سورہ والعصر کو ہم پڑھتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں لیکن کبھی بھی تیزی سے گزرنے والے وقت کے ضیاع پر نادم نہیں ہوئے، ہمارے پاس اگر کوئی چیز ضائع کرنے والی ہے تو وئہ صرف وقت ہی تو ہے۔ وقت کا ضیائع صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ اجتماعی، قومی اور حکومتی سطح پر بھی ہورہا ہے۔ تبدیلی لانے والے ادارے نیلامی کے منتظر ہیں۔ ٹیکنالوجی بانجھ پڑی ہے۔ ساری کرپشن اختیارات و الوں کے قدموں تلے ہے۔
Information Technology
پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کی با تیں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن شایدہم ابھی تک کمپیوٹر کو جدید ٹائیپ رائیٹر کے طور پرہی استعمال کر ر ہے ہیں۔ آن لائن سہولت نظریہ ضرورت کی طرح استعمال ہو رہی ہے۔ عوامی بھلائی کاکوئی خود کار نظام نہیں۔ کمپیوٹر کے اس دور میں بھی ہم اپنے پراجیکٹس ( پیپر لیس) نہیں کر پا رہے۔ فائیلوں کا بوجھ کم ہونے کی بجائے بڑ ھ رہا ہے۔ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن اف پاکستان نے کمپنیوں کو رجسٹریشن اور نام کے حصول کیلئے سہولت دے رکھی ہے۔ لیکن مطلوبہ سہولتوںکے حصول کے لیئے مزید ڈیویلپمنٹ کی ضرورت ہے تاکہ یہ وارننگ نہ دینی پڑے۔Disclaimer:. This is a system generated confirmation,which does not establish any right of name reservation in favour of the applicant. The final decision regarding the name availabality rests with the registrar of companies.
پاکستان بھر کے صحافی جو آخبار یا میگزین کا ڈیکلیریشن لینے کے خواہش مندہوتے ہیں انہیں نام کے حصول میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس میں صحافیوں کا مالی نقصان اور وقت کا ضیاع ہو رہا ہے۔ انفارمیشن منسٹری یا پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے لیئے یہ بہت ہی چھوٹا کام ہے۔ نام کے حصول کے لیئے آن لائن سہولت فرا ہم کی جائے۔ اطلاعات تک رسائی کا حق دینے کے ساتھ ساتھ اخبارکے نام تک رسائی بھی دی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ڈیکلریشن فارم آن لائن حاصل کرنے سے قومی سلامتی کو خطرہ ہو اور ا خبا کے نام کے حصول کے لیئے معلومات حاصل کرنا سیکورٹی رسک ہو۔ نام کے حصول کے مشکل مراحل کو آسان بنانے کے لیئے کرپشن کی بلیک واٹر بھی متحرک ہے۔
انڈیا کی سرکاری ویب سائیٹ پر رجسٹرڈ اخبارات اور میگزین کے متعلق أن لائن معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جس سے اخبارات، میگزین کا نام، رجسٹریشن نمبر، ٹائیٹل کوڈ، مالک، ایڈریس، پبلشر، شہر جہاں سے شائع ہوتا ہے، ضلع ، تاریخ آجراء، لینگوئج جیسی انفارمیشن حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اگر کوئی نام رجسٹر نہیں ہے تومیسج آ جاتا ہے۔ ڈیکلریشن آن لائن ڈاؤن لوڈکیا جاسکتا ہے۔ڈیکلریشن کے متعلق دیگر معلومات بھی آن لائن موجود ہیں۔ نہ جانے ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جنگ انڈیاسے کیوں نہیں جیتنا چاہتے؟
معلومات کا حصول ایک بنیادی انسانی حق ہے تو صحافیوں کو نام کے حصول کی آن لائن سہولت کیوں نہیں؟ انفارمیشن منسٹری اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی میٹرو بس چلا دے تو لہو رنگ، کالی اور زرد خبروں کے موسم میں خبر بنانے والے اسے اس دور کی سنہری خبر بنا سکتے ہیں۔