انقرہ (جیوڈیسک) ترک وزیراعظم رجب طیب ایردگان نے پہلی عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کی فوج کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام پر معافی مانگ لی ہے۔
ترک وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے آرمینیائی باشندوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی ننانویں برسی کے موقع پر یہ بیان جاری کیا گیا ہے اور 1915 ء میں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام پر کسی ترک رہنما کی جانب سے یہ پہلا بیان ہے جس میں بیسویں صدی کی اس پہلی مبینہ نسل کشی پر معافی پر معذرت کی گئی ہے۔
ایردگان نے بیان میں کہا ہے کہ پہلی عالمی جنگ میں پیش آئے واقعات ہمارا مشترکہ درد ہیں۔ ہمیں یہ توقع ہے اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایک ہی جیسی روایات اور اقدار کے امین قدیم اور منفرد جغرافیے کے حامل لوگ ماضی سے متعلق بالغ نظری سے ایک دوسرے سے بات کر سکیں گے اور مہذب انداز میں اپنے نقصانات کا اعادہ اور ازالہ کر سکیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ بیسیویں صدی کے اوائل میں پیش آئے واقعات میں اپنی جانیں گنوانے والے آرمینیائی امن میں ہوں گے۔ ہم ان کے پوتوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔
آرمینیا کا یہ موقف رہا ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں ترک فوجوں کے ہاتھوں اس کے پندرہ لاکھ شہری مارے گئے تھے لیکن ترکی اس دعوے کو مسترد کرتا چلا آرہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران صرف تین سے پانچ لاکھ کے درمیان آرمینیائی باشندے مارے گئے تھے اور اتنی ہی تعداد میں ترک بھی مارے گئے تھے لیکن میدان جنگ کے علاوہ قحط سالی کی وجہ سے بھی ہلاکتیں ہوئی تھیں لیکن ترکی آرمینیا کی جانب سے اس قتل عام کے لیے وضع کردہ نسل کشی کی اصطلاح کو بالکل مسترد کرتا ہے۔
یادرہے کہ فرانس نے 2001ء میں آرمینیائی باشندوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دے دیا تھا اور سابق فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے اپنے دور حکومت میں ترکی سے کہا تھا کہ وہ آرمینیا میں قتل عام کو نسل کشی تسلیم کرے۔ وگرنہ فرانس اس سے انکار کو ایک جرم قرار دے گا۔ سارکوزی بحیثیت صدر فرانس ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی سب سے زیادہ مخالفت کرتے رہے تھے۔