8برس قبل مشرق وسطی میں ‘ عرب سپرنگ ‘ کے بعد بڑی نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ، تاہم یہ یہ تبدیلیاں مستقل نہیں بن سکیں لیکن بعض ممالک ان تبدیلیوں کی وجہ سے تباہی کا شکار بھی ہوئے ان میں مملکت شام کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ بیرونی عناصر کی وجہ سے شام عالمی طاقتوں کا جنگی اکھاڑا بن گیا ، جس کے مضر اثرات سے مشرق وسطی بُری طرح متاثر ہو چکا ہے ، ‘ عرب سپرنگ ‘ کے بعد سوڈان بھی متاثر ہوا اور بتدریج سوڈان کی حالت بھی مملکت شام کی طرح بنتی جا رہی ہے ، تاہم اس وقت سوڈان بیرونی عناصر میں عالمی طاقتوں کا جنگی اکھاڑا نہیں بنا ہے لیکن مستقبل قریب میں یہ خدشات سر اٹھا رہے ہیں کہ سوڈان بھی عالمی طاقتوں کے درمیان جنگی اکھاڑا بن سکتا ہے ۔ گیارہ اپریل 2019 کو کوسوڈانی فوج نے اپنے ملک کے صدر جنرل عمر حسن احمد البشیر کے خلاف بغاوت کی اور ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ عمر البشیر کا تعلق البدیرة الدہمشیہ قبیلے سے ہے۔ وہ 1944 میں حوش بانفا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 1967 میں سوڈان کے فوجی کالج سے فارغ ہوئے۔ 1984 میں ملائیشیا سے عسکری علوم میں ماسٹر کیا۔
انہوں نے 30 جون 1989 کو اس وقت کے صدر اور کابینہ کے سربراہ صادق مہدی کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ان کی رہنمائی اخوان المسلمین کے رہنما مرحوم استاد حسن ترابی کے اسلام پسند گروہ کی جانب سے کی جا رہی تھی۔11اپریل 2019 کی شام کو سوڈان کے وزیر دفاع عوف بن عوض نے ٹی وی پر قوم کو بتایا کہ اب عمر البشیر کا 30برس کا دور ختم ہو چکاہے۔ وزیر دفاع نے اپنے اعلان میں کہا کہ دو سال تک ملٹری کونسل کی جانب سے ملک کے انتظامی معاملات سنبھا لے جائیں گے۔ آئین معطل ہوگا۔ تین ماہ تک ملک میں ایمرجنسی نافذ رہے گی۔ مقررہ مدت کے بعد نئے آئین کی روشنی میں انتخابات ہوں گے۔ اقتدار ایک جمہوری حکومت کے حوالے کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ 1989سے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والے عمر البشیر کے خلاف کئی مہینے سے اقتصادی بحران اور مہنگائی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ جس میں بعدازاں کچھ بیرونی ممالک کے اشارے پر جنرل عمر البشیر سے استعفا کا مطالبہ بھی شامل ہوگیا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ صدر البشیر کا تختہ الٹنے کے بعد سوڈان کی فوجی کونسل کے سربراہ عود ابن عوف نے ایک دن بعد ہی عوامی مظاہروں کے دوران اپنا عہدہ چھوڑکر انہوں نے لیفٹینینٹ جنرل عبد الفتاح عبدالرحمان برہان کو اپنا جانشین نامزد کردیا تھا کیونکہ احتجاج کرنے والے مظاہرین نے سڑکیں چھوڑنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ تختہ الٹنے والے افراد عمر البشیر کے بہت قریبی لوگ ہیں۔عود ابن عوف 2000 کی دہائی میں دارفور کی جنگ کے دوران سوڈان کی فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ تھے۔
امریکہ نے 2007 میں ان پر پابندی لگا دی تھی ( 2017میں بھی سوڈان اُن چھ ممالک کی فہرست میں شامل ہے جن پر امریکا نے سفری پابندی عاید کی ہوئی ہے)۔خرطوم میں مظاہرین عود ابن عوف کے جانے پر جشن منا رہے تھے اور ‘پھر گرا’ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔مظاہرے کی سربراہی کرنے والی تنظیم سوڈان پروفیشنل ایسوسی ایشن نے کہا تھا” کہ عود ابن عوف کے عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ مظاہرین کی ‘فتح’ ہے۔عمومی خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جب الجزائر میں شدید احتجاج کے بعد مظاہرین نے صدر بوتفلیقہ کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا تھا تو اس کے بعد سوڈانی مظاہرین کے احتجاج میں بھی سختی آگئی ، اب تک متعدد پُر تشدد واقعات میں سینکڑوں مظاہرین دوران احتجاج جاں بحق و ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ بعض مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ صدر عمر البشیر جو کہ30برس سے فوج کے حامی رہے تھے ان کی منشا تھی اسی وجہ سے فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ، کیونکہ صدر عمر البشیر خود بھی ایک فوجی جنرل رہ چکے ہیں۔
2011کے بعد مشرق وسطی میں مظاہرین کے خلاف سربراہوں نے سخت طاقت کا استعمال کیا تھا ، خاص طور پر لیبیا اور شام کے حالات ابھی تک بہتر نہیں ہوسکے ، حالانکہ ان ممالک میں عالمی طاقتوں کی براہ راست مداخلت بھی شامل تھی ، لیکن اس کے باوجود خانہ جنگی ، لاکھوں انسانوں کا قتل اور خطے میں امریکا ، روس اور دیگر ممالک کی کھلی فوجی مداخلت کی وجہ مشرق وسطی مزید تباہی کی جانب رواں ہے ۔ خاص طور اب سعودیہ اور ایران کے درمیان جنگ کا خطرہ شدت سے سامنے آرہا ہے۔ سوڈان کے جنرل عمر البشیر بھی جانتے تھے کہ ان مظاہرین کے پیچھے مخصوص قوتوں کا ہاتھ ہے۔ جن کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ خصوصاً ان ممالک میں حکومت کے خلاف عوام کو اٹھایا جائے، جو صلیبی دنیا کے مفادات کے لیے خطرہ واقع ہوسکتے ہیں۔ اسی ذریعے سے انہیں تقسیم کیا جائے۔ جس طرح صدام حسین، معمرالقذافی اور محمدمرسی نے امریکی احکام نہیں مانے تو کسی کو مصنوعی انقلاب کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا، کسی کے خلاف عوام کو اٹھایا اور پھر براہ راست مداخلت کی اور ان حکومتوں کو گرا دیا۔ ان ممالک کو اپنا محتاج بنا دیا۔ یہی کھیل سوڈان میں کھیلا جارہا ہے۔ سوڈانی عوام کو چاہیے لیبیا اور شام کے انجام کو دیکھتے ہوئے غیروں کے ہاتھ اپنے ملک کے مفادات کو مد نظر رکھیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سوڈان میں ہونے والے حالات سے امریکا ، روس ، یورپی یونین سمیت مغربی دنیا لاپرواہ ہے اور مثبت و فعال کردار ادا نہیں کررہی ۔واضح رہے کہ عمر البشیر کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) نے دارفور جنگ کے معاملے میں جنگی جرائم اور نسل کشی جرائم کا مرتکب پایا گیاہے۔ تاہم عمرالبشیر آئی سی سی کے الزامات سے انکار کرتے ہیں۔سوڈان کی فوجی کونسل بھی جنرل عمر البشیر کو کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ امارات نے سوڈان کے خراب حالات کے سبب خوارک ، دوائیوں ، سستے پٹرول اور امداد کی پیش کش بھی کی ہے اور سوڈان میں مستقبل کے سیاسی ڈھانچے کے لئے مختلف گروپوں کے درمیان مذاکرات کا اہتمام بھی کیا ۔ امریکا اور خاص طور روس سوڈان کے داخلی معاملات و مظاہرین کے مطالبات کے حوالے سے کوئی فعال کردار ادا نہیں کررہے ، حالاں کہ روس اور سوڈان کے درمیان کئی معاہدوں کے ساتھ روس کا حلیف ملک سمجھا جاتا ہے ۔ تاہم روسی وزارت خارجہ کا بیان سامنے آیا ہے کہ” وہ سوڈان میں مختلف فریقوں کے ساتھ رابطے میں ہے تا کہ بات چیت اور مکالمے کو ممکن بنایا جا سکے۔ جاری بیان میں باور کرایا گیا ہے کہ روسی وزارت خارجہ سوڈان میں بین الاقوامی مداخلت کو مسترد کرتی ہے۔ وزارت نے شدت پسندوں کو کچلنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تا کہ سوڈان میں انتخابات کا اجرا یقینی ہو۔” امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان رابرٹ بالاڈینو نے کا کہنا ہے ”کہ سوڈانی فوج کو چاہیے کہ وہ اقتدار سول عبوری انتظامیہ کے حوالے کر دے اور عبوری دور دو سال سے زاید عرصے پر محیط نہیں ہونا چایئے۔ امریکا نے سوڈانی فوج پر زور دیا کہ وہ ملک میں تمام طبقات کی نمائندہ حکومت تشکیل دے۔” ایک عشرے تک امریکا نے سوڈان کو عسکریت پسندوں کو امداد دینے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے پابندیاں بھی عاید کی ہوئی ہیں اور کروز میزائل کے حملے بھی کئے ہیں۔ اس وقت مریکا اور سوڈان کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے مذاکرات کا دورمعطل ہوچکا ہے ۔ سابق امریکی صدر بارک اوبامانے داعش کے خلاف سوڈان کے کردار پر پابندیاں ہٹانے کے لئے کوشش کی تھی تاہم سوڈان میں فوجی حکومت کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے سوڈان سے تعلقات معطل کردیئے ہیں۔
سوڈان سعودی عرب کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ایران کے رسوخ سے باہر نکل گیا ۔یہاں تک کہ اب سوڈان کے فوجی یمن جنگ میں سعودی اتحادی فوج کا حصہ بن چکے ہیں اور سوڈانی فوجی حوثی باغیوں پر حملے کررہے ہیں۔لیکن سوڈان کا رجحان قطر اور ترکی کی جانب بھی ہے ۔مارچ 2018میں سوڈان نے ترکی اور قطر کے ساتھ بحر احمر میں سوکن کی بندرگاہ قائم کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ نیزجب سوڈان میں عوامی مظاہروں کی لہر عروج پر تھی تو سب سے پہلے سوڈان نے مدد کے لئے قطر سے امداد کی اپیل کی تھی ، لیکن سعودی عرب کا رسوخ سوڈان میں بڑھتا جارہا ہے۔شام میں امریکا اور روس کی موجودگی کے باوجود سوڈان میں سیاسی ڈھانچہ نہ ہونے کے سبب عالمی قوتوں کا کردار بالکل نہیں ہے۔سوڈان کی تاریخ میں فوج کا کردار شروع سے رہا ہے۔1956 میں آزادی کے صرف دو سال بعد ہی 1958 میں چیف آف سٹاف میجر جنرل ابراہیم آبود نے ایک خونی بغاوت کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا۔1964 میں مظاہروں کے بعد فوج اقتدار سے الگ ہوئی۔تاہم 1969 میں کرنل جعفر النیمیری کی بغاوت کے بعد اقتدار پھر فوج کے پاس چلا گیا۔
جعفر النیمیری کو خود کئی بغاوتوں کا سامنا رہا۔1985 میں لیفٹیننٹ جنرل عبد الرحمان سوار الدحاب کی سربراہی میں فوجی سربراہان کے اپنے گروپ کے ساتھ النیمیری کو اقتدار سے محروم کرکے ایک برس بعد الدحاب نے تمام اختیارات منتخب حکومت کے وزیراعظم الصادق الماہدی کے حوالے کر دیے۔ لیکن صرف تین سال بعد جون 1989 میں بریگیڈیئر عمر البشیر کی سربراہی میں اسلامی فوجی سربراہان نے الماہدی کے غیر مستحکم اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔30 سال سے عمر البشیر اقتدار بھی مظاہرین کے شدید احتجاج کے بعد اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور پھر سوڈان میں فوجی حکومت آئی اب دوبارہ سوڈان میں انتخابات کے لئے ٹائم فریم دیا گیا ہے۔ سوڈان اپنی آزادی سے اب تک جنگی صورتحال سے گزر رہا ہے ۔ مسلم اکثریتی ممالک کو سوڈان کی صورتحال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ مملکت شام کی طرح سوڈان میں انسانی المیہ جنم نہ لے سکے۔معاشی و معاشرتی عدم استحکام کے سبب سوڈان جیسے ممالک کی عوام کو مسلم اکثریتی ممالک کا کردار خطے میں ایک نئے عالمی جنگی اکھاڑے کو بننے سے روک سکتا ہے ۔ سوڈان کی نازک صورتحال کو نظر انداز کرنے سے عالمی قوتوں کو اپنے مقاصد کے لئے بے امنی سے متاثرہ ایک ایسی سرزمین میسر آسکتی ہے جو خطے کے دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے لئے مستقبل میں مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، ترکی اور قطر کو سوڈان کے بدترین حالات پر یکسو ہوکر مربوط سیاسی حل نکالنے کے لئے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔