دنیا میں شادی بیاہ کی مختلف رسوم ورواج

Family

Family

تحریر: محمد راشد تبسم
خاندان کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ انسانوں کا ایسا گروپ جس میں ایک مرد ، ایک عورت اور ان کے بچے شامل ہوں۔ خاندان کی بڑھوتری کیلئے مردوعورت کا باہمی تعلق اشد ضروری ہے۔ اس تعلق کو قائم رکھنے کیلئے ہر معاشرے میں شادی کو لازمی سمجھا جاتا ہے۔ مردوعورت کا یہ تعلق نسل انسانی کی بقا کیلئے ناگزیر ہے۔شادی بیاہ کا تصور پہلے انسان کی پیدائش سے ہے۔ شادی انسانی تہذیب وتمدن میں سب سے اہم مسئلہ ہے۔ خاندان کی اہمیت کے سب معترف ہیں، خاندان کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہاالسلام سے ہوا۔ ہر دور، تہذیب، معاشرے، مذہب اور ملک میں خاندان کا کوئی نہ کوئی وجود رہا ہے۔ خاندان کا آغاز شادی سے ہوتا ہے۔ شادی ہی دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں مردوعورت کے ملاپ کا جائز اور قانونی ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے بغیر ملاپ کو کسی بھی معاشرے میں قدر اور عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا ۔

ہر مذہب،معاشرے اور تہذیب میں شادی بیاہ کے قوانین اور رسومات مختلف الگ الگ ہیں۔ بعض رسومات سے تو ہر انسان تنگی اور تکلیف محسوس کرتا ہے۔ درحقیقت انسانوں نے شادی بیاہ کے طریقہ کار کو پیچیدہ بنا کر اپنے لیے خود ہی مشکلات پیدا کی ہیں۔ جس کی وجہ سے شادی جیسا آسان مذہبی فریضہ بھی مشکل تر ہو گیا ہے۔ دنیا میں زمانہ قدیم سے لے کر دور جدید شادی بیاہ کی رسومات میں تبدیلی ہوتی رہی ہے جن کا آج مختصراً ذکر کیا جائے گا۔ اسلام سے پہلے شادی کے رسم ورواج: یونانی معاشرہ میں مرد جس سے چاہتا شادی کر لیتا، اس معاشرہ میں بیٹی اور بہن جیسے مقدس رشتوں سے بھی نکاح جائز تھا۔ علاوہ ازیں نکاح کے بغیر تعلق کو بھی جائز سمجھا جاتا تھا۔رومی تہذیب میں بھی بیوی کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے اور شادی کے بعد عورت کا مقصد صرف خدمت اور چاکری ہی تھا۔ گھر کا سربراہ جب چاہے عورت کو بغیر کسی وجہ سے گھر سے نکال سکتا تھا۔ شروع شروع میں یہاں اخلاق کا معیار بلند تھا لیکن رفتہ رفتہ شادی بیاہ کے قوانین میں تبدیلی آتی گئی اور نکاح محض ایک معاہدہ بن کر رہ گیا۔ ایرانی تہذیب میں خاندانی نظام تباہ اور زنا کا رواج عام ہو گیا تھا۔

Weddings

Weddings

ہر شخص اپنی آمدنی کے حساب سے جتنی چاہے شادیاں کر سکتا تھا۔ غریب آدمی کو صرف ایک بیوی پر ہی اکتفا کرنا پڑتا تھا۔ اس معاشرے میں تمام بیویوں کو ایک جیسے حقوق حاصل نہیں تھے۔ ایران میں ماں،بہن، بیٹی اور ان جیسے محرم رشتہ داروں سے شادی مذہبی فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ایک اور عجیب وغریب رسم یہ تھی کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو کسی دوسرے کو دے دیتا تھا تاکہ وہ اس کو روزگار کے کام میں استعمال کر سکے۔ مصری تہذیب بھی پرانی اور قدیم سمجھی جاتی ہے۔ مصری بادشاہوں کیلئے محرم رشتہ داروں جیسے ماں، بہن اور بیٹی کے ساتھ نکاح پر کوئی پابندی نہیں تھی۔مصری اپنی بیٹیوں کا نکاح مٹی کے بتوںسے بھی کر دیتے تھے۔ہندوستانی معاشرہ میں بھی شادی بیاہ کے رسم ورواج فرسودہ تھے۔ ذات پات کا رواج عام تھا۔ صرف اپنی ذات میں شادی کی اجازت تھی اور یہاں تک کہ عورت کی شادی بتوں تک سے کر دی جاتی تھی۔ ہندوستانی معاشرے میں شوہر کے مر جانے کے بعد عورت کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور اس کے پاس صرف دو اختیار تھے یا وہ ستی ہو جائے یعنی شوہر کے جل جانے کے ساتھ ہی جل جائے یا پھر تمام زندگی بیوہ ہی رہے یعنی اسے دوسری شادی کی اجازت نہیں ۔عرب معاشرے کا حال بھی دیگر تہذیبوں اور معاشروں سے مختلف نہ تھا۔ عورت کو مرد کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا۔ زنا عام ہو چکا تھا۔ ایک آدمی جتنی مرضی شادیاں کر سکتا تھا۔ حتیٰ کہ محرمات سے شادی کرنا عام تھا اور اس پر کوئی قدغن نہیں تھی۔

دورجاہلیت میں رائج نکاح کے طریقے: قبل ازاسلام عرب تہذیب میں نکاح کے چار طریقے رائج تھے۔ پہلا عام نکاح کا طریقہ تھا جو آج کل بھی چل رہا ہے۔ ایک آدمی دوسرے آدمی کی بیٹی کو نکاح کا پیغام دیتا۔ جس کے بعد حق مہر مقرر کر کے ان میں شادی ہو جاتی ۔ دوسرا طریقہ نکاح میں شوہر بیوی کے حیض کے بعد کسی شخص کو بھی بلا کر بیوی سے ہم بستری کا کہتا اور خود کچھ عرصہ کیلئے اس سے الگ رہتا۔ جب بیوی حاملہ ہو جاتی تو پھر یہ شخص اپنی بیوی سے صحبت کرتا۔ تیسرے طریقہ نکاح میں چند آدمی ایک عورت کے پاس پہنچ کر ہم بستری کرتے۔ اگر وہ عورت حاملہ ہوجاتی تو جس آدمی کی طرف بھی اشارہ کرتی بچہ اسی کا ہے۔ وہ آدمی انکار نہیں کر سکتا تھا اور بچہ اسی کا گردانا جاتا تھا۔ چوتھے طریقہ نکاح میں ایک عورت سے بہت سے اشخاص صحبت کرتے۔ کسی کو کوئی روک ٹوک نہ ہوتی۔ پھر بچہ ہونے کے بعد اسے ان میں سے کسی ایک شخص کی طرف منسوب کر دیا جاتا۔
دیگر مذاہب میں شادی بیاہ کے رسوم و رواج:

Hinduism

Hinduism

ہندومت:
ہندو مذہب میں شادی بیاہ کی اکثر رسومات غیر فطری اور ناموزوں ہیں، مثلاً شادی اپنے خاندان سے باہر کرنا، کئی مردوں کی ایک ہی عورت سے شادی اور ایک مرد کو کئی شادیوں کی اجازت۔ علاوہ ازیں ستی کی رسم بھی قابل مذمت ہے۔ ہندو معاشرے میں کم سن لڑکیوں کی شادی کا رواج عام ہو گیا ہے۔ شادی ایک خیمہ میں کی جاتی ہے۔ شادی کا گواہ آگ کو بنایا جاتا ہے۔ ہندو مذہب میں مہر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ایک مرد کو اپنی مرضی کے مطابق شادیوں کی اجازت ہے۔ اسی طرح ایک عورت بھی کئی شوہر رکھ سکتی ہے۔ شوہر کے مر جانے کے بعد اس کی عورت کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ ہندو دھر م میں زنا باالرضا کی کوئی سزا نہیں ہے اور اسے جائز سمجھا جاتا ہے جبکہ زنا بالجبر کو ایک جرم خیال کیا جاتا ہے جس کی سزا ہندو دھرم اور قانوں میں مذکور ہے۔بعض مواقع پر تو زنا کو جائز قرار دیا گیاہے۔

یہودیت:
یہودیت ایک الہامی مذہب ہے لیکن اس کے ماننے والوں نے اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی تعلیمات میں تحریف کر دی۔ یہودی مذہب میں عورت کا کام صرف مرد کی خدمت اور اولاد پیدا کرنا ہے۔ اگر عورت کے ہا ں بچے پیدا نہ ہوں تو مرد کسی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کر سکتا ہے۔ اسی طرح یہودی معمولی سے معمولی خطا پر بھی عورت کو طلاق دے دیا کرتے۔ شوہر کے مرنے کے بعد یہودی عورت صرف شوہر کے بھائی سے ہی دوسری شادی کر سکتی ہے۔ یہودی مرد بھی جتنی چاہے شادیاں کر سکتا تھا۔ شادی والے دن روزہ رکھنے کو اچھا اقدام سمجھا جاتا ہے۔ شادی کی رسم میں کم ازکم 10بالغ افراد کی موجودگی لازمی ہے۔ یہودی دلہا اور دلہن شادی کی رسم کے بعد اکٹھے روزہ کھولتے ہیں۔شادی چار ستونوں والے خیمے کے نیچے ہوتی ہے۔ یہودیت میں نکاح نامہ کے بغیر شادی کا کوئی تصور نہیں۔شادی کی رسم میں یہ بھی شامل ہے کہ دلہا دلہن شراب پیتے ہیں۔ شراب پینے کے بعد دلہا گلاس کو توڑ دیتا ہے۔ایک آدمی کی دو بہنوں سے بیک وقت شادی بھی حرام ہے۔یہودی عورت صرف ایک بار ہی شادی کر سکتی ہے۔یہودی مذہب میں زنا کی سزا بھی موجود ہے۔

Christianity

Christianity

عیسائیت:
عیسائیت بھی ایک آسمانی مذہب ہے لیکن اس میں بھی عورت کا تصور بہت تاریک ہے۔عیسائیت میں شادی ایک ضروری امر نہیں بلکہ ایک مجبوری کا نام ہے۔ عیسائیت میں ہی شادی اور ازدواجی زندگی سے دور رہنے والابہت بابرکت سمجھا جاتا تھا۔کم وبیش تمام عیسائی ممالک میں شادی کی عمر کا تعین کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص والد ین کی رضامندی کے بغیر شادی کر لیتا ہے تو ایسی شادی جائز ہے۔شادی والے دن دلہن کا اچھے لباس پہننا اور زیور سے آراستہ ہونا بھی ثابت ہے۔عیسائیت میں شہ بالا کا تصور بھی ملتا ہے جو ایک خاص کردار کرتا ہے ۔

عیسائی مذہب میں مہر کا تصور بھی ملتا ہے۔ مہر کیلئے عورت کا کنوارا ہونا لازمی شرط ہے۔بائبل کے مطابق مہر کی رقم پر عورت کا کوئی حق نہیں۔ علاوہ ازیں اگر کوئی عیسائی مذہب جاننے والا کسی کنواری لڑ کی سے زبردستی زنا کر لے تو وہ لڑکی ہر صورت میں اس کی بیوی بنے گی اور وہ آدمی ساری زندگی اسے طلاق نہیں دے سکتا۔

Islam

Islam

اسلام:
اسلام وہ واحد مذہب ہے جو زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔دیگر نظاموں کی طرح اسلام کا خاندانی نظام بھی مکمل، مفصل اور غلطیوں سے پاک ہے۔ اسلام کے علاوہ دیگر تمام مذاہب میں عورت کا درجہ جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔ اسلام نے شادی بیاہ اور اس کے بعد کی زندگی کے حوالہ سے ایک قابل عمل تصور پیش کیا۔ اسلام نے نکاح کوانسانی زندگی کی اکائی قرار دے کر لازمی قرار دیا ہے۔ نکاح افزائش نسل اور معاشرے کو برائی سے پاک رکھنے کا بھی سبب ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ۖ نے فرمایا: محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو۔دین اسلام نے شادی کیلئے کوئی خاص عمر مقرر نہیں کی لیکن اس کے لیے ایک اصول اور ضابطہ مقرر کر دیا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کا بالغ ہونا ضروری ہے۔ ہر خطے اور علاقے میں لڑکے کی بلوغت کی عمر مختلف ہے۔ اسلام نے نکاح میں والدین اور فریقین کی رضامندی کوبہت اہمیت دی ہے۔باپ اپنی بیٹی کو جبراً نکاح پر مجبور نہیں کر سکتا اور نہ ہی بیٹی والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کر سکتی ہے۔

دیگر تمام مذاہب کے برعکس اسلام حق مہر کو لازمی قرار دیا گیا ہے یعنی مرد نکاح کے بعد سب سے پہلے عورت کو مہر ادا کرے۔ اسلام نے ہی عورت کو طلاق یا خاوند کے فوت ہو جانے کے بعد دوسری شادی کا حق دیا ہے۔ اسلام میں ایک مرد کیلئے زیادہ سے زیادہ چار شادیوں کی اجازت ہے یعنی وہ ایک وقت میں چار عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے۔ چار شادیوں کی اجازت بھی عدل کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر مرد اپنی بیویوں کے ساتھ عدل نہیں کر سکتا تو اس کے لیے ایک ہی بیوی کافی ہے۔ تمام مذاہب کے شادی کے قوانین اور رسوم ورواج کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام نے ہر معاملہ میں اعتدال سے کام لیا ہے۔اسلام کے تمام احکامات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں اور یہی دین عورت کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے۔

Rashid Tabassum

Rashid Tabassum

تحریر: محمد راشد تبسم