عورتوں کے خلاف مختلف نوعیت کے تشدد کے واقعات کی سب سے زیادہ شرح افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ وسطی کے ممالک میں ہے۔ ایشیا اور یورپ میں 25 فیصد خواتین زندگی میں کسی نہ کسی وقت جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار بنتی ہیں: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ خواتین کے خلاف جسمانی یا جنسی تشدد سے متعلق عالمی سطح کے ایک جائزے کے نتائج کے مطابق دنیا بھر کی خواتین کی کل تعداد کا ایک تہائی حصہ کسی نہ کسی وقت اپنے موجودہ، سابقہ خاوند یا پارٹنر کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہو تی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سربراہ ڈاکٹر مارگریٹ شین کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف جسمانی یا جنسی تشدد صحت کے ایک عالمی مسئلے کے مساوی ہے۔ اس حوالے سے کیے جانے والے ایک تفصیلی جائزے کے بعد متعدد رپورٹیں جاری کی گئیں جن کے مطابق عالمی طور پر کم از کم 30 فیصد عورتیں کبھی نہ کبھی جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار بن چکی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اس جائزے کے مطابق عورتوں کے خلاف مختلف نوعیت کے تشدد کے واقعات کی سب سے زیادہ شرح افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ وسطی کے ممالک میں ہے جہاں قریب 37 فیصد عورتیں زندگی میں کسی نہ کسی وقت تشدد کا شکار بنتی ہیں۔ لاطینی امریکا میں یہ شرح تیس فیصد جبکہ شمالی امریکا میں 23 فیصد ہے۔ ایشیا اور یورپ میں 25 فیصد خواتین زندگی میں کسی نہ کسی وقت جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار بنتی ہیں۔
تشدد کرنے والے عام طور پر خاوند یا پارٹنرز ہوتے ہیں۔ اس جائزے کے مطابق دنیا بھر میں قتل کی جانے والی عورتوں کی کل تعداد کے 40 فیصد حصے میں پارٹنر یا ایسا کوئی شخص ملوث ہوتا ہے جس کے مقتولہ کے ساتھ جنسی روابط قائم ہوں۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں قریب 600 ملین عورتیں ایسے ممالک میں رہتی ہیں جہاں گھریلو تشدد کو جرم نہیں مانا جاتا۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کی کم از کم 7 فیصد خواتین کسی نامعلوم فرد کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار بھی بن چکی ہیں۔ اس رپورٹ میں شامل اعدادوشمار اور معلومات سن 1983 سے لے کر 2010 کے درمیان کیے جانے والے متعدد جائزوں پر مبنی ہیں۔ خواتین کے خلاف جسمانی یا جنسی تشدد کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اسی رپورٹ میں گائڈ لائنز بھی جاری کی ہیں۔
جن میں یہ زور دیا گیا ہے کہ طبی شعبوں میں کام کرنے والے تمام کارکنان کو اس بات کی تربیت فراہم کی جانی چاہییے کہ وہ درست وقت پر یا پھر قبل از وقت تشدد کے ممکنہ کیسز کو سمجھ سکیں اور ان کے خلاف کارروائی کو یقینی بنا سکیں۔ اس کے علاوہ جسمانی یا جنسی تشدد کو پہچاننے کے لیے طبی معائنوں کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔