عالمگیر معاشرہ کی ترقی اور آئیڈیل نظام کی ضرورت:حصہ دوئم

Preview

Preview

تحریر: رانا ابرار

انسان اور حیوان کی زندگی میں اصول کا فرق ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ہم دیکھیں ایک مشاہدہ کریں تو ایک جانور کو یہ فکر نہیں ہوتی ہیکہ اس نے صبح کیاکھا یا ہے اور شام کو کیا کھائے گا؟ ۔جیسے ایک شیر نے صبح ہرن کھایا ہے اور اسکی یہ تمنا نہیں ہو گی کہ جب بھوک لگے گی تواگلی بار وہ بکری ڈھونڈ کر کھائے گا۔ ایسا نہیں اسکو جو ملنا ہے اس نے وقت کے مطابق اسکا شکار کرنا ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس انسان اپنی منصوبہ بندی کے مطابق چلتا ہے میں نے یہ کھایا ہے تو اگلی بار میں یہ کھائوں گا ، رنگ برنگ کے پکوان اسی تبدیلی کا نتیجہ ہیں ۔جانور کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں جو اس نے اپنی مرضی سے لا کر کے اپنے رہن سہن میں ترقی کی ہو۔ اس کے برعکس انسان نے کی ہے۔ انسان کے پاس ایک ضابطہ ہے جو کہ جانور کے پاس نہیں ہے۔

جیورٹس کے مطابق یہ ضابطہ انسان نے خود (Man made Laws) بنایا ۔ وقت اور حالات کے مطابق اپنی ضروریات زندگی کے ساتھ یہ بھی سیکھا کہ اس نے دوسروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے اور پانی میں ڈوبنے لگا تو اس نے تیرنا سیکھا ، آگ جسکو پوجتا تھا ، جب تک اسکو سمجھ نہیں تھی لیکن جب اسکو سمجھ آئی تو اسی پر قابو پا لیا اور اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔ غرض وہ سب سیکھا جو وہ خود نہیں جانتا تھا ۔ اور اپنی طاقت اور اختیار کا بھی اندازہ لگا لیا ۔ لیکن اس کے برعکس جانور جیسا شروع سے زندگی گزار رہا ہے آج بھی ویسا ہی ہے ۔ کیا یہ سب کچھ انسان نے خود بخودسیکھا؟۔ اسکی کسی نے رہنمائی نہیں کی۔ میں اس چیز کا قائل نہیں ہوں خودبخود کچھ ہواہو!۔۔میرا یہ ماننا ہے ہر ایک چیز کے پیچھے ایک چیزہے اورہر نئی چیزکا سابقہ کے ساتھ ربط اور تسلسل ہے جب تک فطرت کے قوانین کا ربط قائم ہے اس وقت تک مادے کی ترقی اور شعور کی ترقی بھی چلتی رہے گی کیوں کہ یہ بھی ایک زنجیر کی طرح ہے اور اس میں ایک کنکشن ہے ۔اس کنکشن میں جو بھی نئی چیز شامل ہوتی ہے وہ اصل سے جا ملتی ہے۔

ایک فرق ہے جانور اور انسان کے اندر، جانور آزادانہ زندگی گزارتا ہے اگر تو انسان اصولوں اور ضابطوں کا فرمانبردار ہے تو انسان ہے نہیں تو اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔کائنات میں جہاں تک بھی انسان کی نگاہ احاطہ کرتی ہے ترقی صرف انسان نے کی ہے باقی ہر چیز جوں کی توں ایک نپے تلے اصول کے تحت کام کر رہی ہے۔فطرت کے قوانین میں کوئی تبدیلی کا باعث بنے تو کیا ہوگا؟ تباہی اور خاتمہ۔ ہر چیز ایک طرح کی قید میںہے۔حدود اور قواعد میں بڑے تناسب کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں۔ ایک انجانی طاقت نے یہ سارا نظام باندھ رکھا ہے۔ انسان کے پاس شعور کی طاقت ہے جس کی وجہ سے اس نے اپنی خوبیوں اور خامیوں میں فرق کرنا سیکھا ہے، یا کہ خالق کی طرف سے سکھایاگیا۔کیوں کہ اسکو اس کائینات میں فری ہینڈ دیا جس مقام کی اسے ضرورت ہے اس پا لے۔

انسان نے طہ کیا کہ اگر وہ خود پر ایڈمنسٹریشن نہیں لگائے تو پورا معاشرتی نظام تباہ ہو جائے گا۔تب سے انسان نے اپنی حدود کا تعین کیا اب جس کا شعور اس مقام پر ہو کہ اس کو پتا ہو کہ میں نے کس طرح خود کو قابو کرنا ہے تو درست ہے وہ ایک آزاد شخص ہے۔نہیں تو جو انسان اس مقام پر نہیں تو وہ تو اپنی خواہشات اور مفاد کے حصول کے لئے کسی چیز کی تمیز نہیں کرے گا۔اس لئے انسان نے قوانین بنائے جن کے اندراس نے سب سے بنیادی کام ایڈمنسٹریشن آف جسٹس کا ایک معیار بنایا تا کہ ہر کسی کو پتا ہو کہ کیا حدود ہیں ۔ Ignorance of Law is not Excuse” ” اس فقرے میں بڑی خوبصوتی ہے ان کئے لئے جو حدود کی خلاف ورزی کو روشن خیالی کہتے ہیں۔

کامن سینس کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کچھ چیزیں درست ہیں اور کچھ چیزیں غلط ہیں زیادہ تر لوگ وقت کے ساتھ اس بات کو مانتے ہیں ۔ لیکن معاشرتی علوم کے ماہرین کے مطابق صحیح اور غلط کے درمیان کی لائن معاشرہ طہ کرتا ہے ۔دو اقسام ہیں ایک (Social Control) معاشرہ افراد کے رویہ کے ساتھ اسکی ذہنی نشونما کرتا ہے دوسری قسم (Criminal Justice System) جس میں تنظیمیں، پولیس، عدالتیں، وغیرہ شامل ہیں جو قانون کے بیان کردہ اصولوں کی خلل اندازی سے متعلق ہیں جس میں کسی غلطی کو ٹھیک کرتے ہیں یا سزا دیتے ہیں۔ جرم کیا ہے اور منصفانہ نظام بھی معاشرہ طہ کرتا ہے۔ سوشیالوجسٹس جرم کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیںWhite-collar Crime)) اس کی انجام دہی معاشرے کے اونچے درجے کے افراد کرتے ہیں، (Corporate Crime) وہ غیر قانونی کام جو ایک تنظیم کرے یا اسکے عامل سر انجام دیں، (Organized Crime) کاروباری اشیاء کی غیر قانونی سپلائی وغیرہ ہے ۔

Courts

Courts

آگے جرائم کی دو اقسام بیان کرتے ہیں (Crime against Person) جن کا بلا واسطہ تعلق ہو تا ہے اشخاص سے ، (Crime against Property) چوری جیسے جرم جن کا تعلق اشخاص کی جائیداد وغیرہ سے ہو۔جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کے لئے پولیس اور عدالتیں ہوتی ہیں۔تاکہ مجرموں کو پکڑ پر سزا دی جا سکے ۔مہلک جرائم کی صورت میں سزائے موت تک کی سزا کا تعین بھی ضروری ہے ، جسکو (Capital Punishment) کہتے ہیں یہ سزا ڈیٹیرنٹ جیورٹس کی تجویز کردہ ہے۔ سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم قانون کی فرماں روائی کیوں کرتے ہیں ؟۔کیا وجہ ہے؟۔بھئی یہ تو ہماری آزاد مرضی پر پابندی ہے اس سے احساس آزادی مجروح ہوتا ہے۔

کسی بھی معاشرے کی تعمیر میں سب سے زیادہ اہم کردار وہاں کے ہیروز اور ولن ادا کرتے ہیں ۔معاشرہ رول ماڈل یاہیرو اس لئے پیدا کرتا ہے تا کہ لوگ انہیں یاد رکھیں انکا نام سالوں رہے لیکن اس کے ساتھ ایک اور بات اگر یہ رول ماڈل نہ ہوں تو پھر کسی کو بھی اس بات کی فکر نہ ہو گی کہ لوگ کیا سوچتے ہیں ۔یہ ماڈل یا ہیروز ہمارے آئیڈل بنتے ہیں جن کی وجہ سے ہم میں بھی ان جیسا بننے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور ہم ان کی عادات کو اپناتے ہیں تا کہ ان کے جیسے دکھائی دیں ۔معاشرہ اس لئے رول ماڈل پیدا کرتا ہے تا کہ ہم ان سے متاثر ہو کر ان سے روشنی لیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افراد کے اذہان کی نشونما کا کام کون سر انجام دیتا ہے کہ بھئی کون ہیرو ہے اور کون ولن؟۔

کون سے کام غلط ہیں اور کون سے کام سہی؟۔ یہ کام معاشرے میں موجود تنظیموں کی ذمہ داری ہے جو اسکو پورا کرتی ہیں معاشرے کے افرادکو ہیروز کی مثالوں کومشعلِ راہ بتاتی ہیں اورولن کردار سے نفرت کرنا سکھاتی ہیں ۔معاشرے کے اکثر افراد اپنے ہیروز سے ملے نہیں ہوتے لیکن پھر بھی وہ ان جیسا رول ماڈل بننا چاہتے ہیں ۔ ہم اتنا غور وفکر نہیں کرتے کہ کیا درست ہے او ر کیا غلط ہے ؟۔جتنا کہ ہمیں باور کروایا جاتا ہے !۔ تنظیموں اور مخصوص اداروں کی مرضی ہے جسے ہمارے سامنے چاہیں ہیرو بنا دیں اور جسے چاہیںولن بنا دیں ۔اگر معاشرے میں ایک شخص ہیرو ہے تو کسی دوسرے معاشرے میں وہ ولن ہو گا ؟ کیوں ایسا کیوں ہے ۔معاشرہ اسکا جواب نہیں دیتا ۔مسئلہ پتا کیا ہے بات یہ ہے کہ کوئی منصف نہیں جب تک انسان کے پاس ایک منظم سسٹم نہیں ہو گا اسوقت تک کوئی بھی معاشرہ فکری ترقی نہیں کر سکتا ۔صرف مادیی ترقی دنیا کے مسائل کا حل نہیں ۔اس سے اووپر ایک فکر اور منتظم کی ضرورت ہے۔

Rana Abrar

Rana Abrar

تحریر: رانا ابرار