تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی آج ہر شخص دنیا میں صحت عامہ کے گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔کہیں یہ عارضی مسائل ہیں تو کہیں مستقل۔کہیں وبائی بیماریاںسبب ہیں تو کہیں اچانک نمودار ہونے والی نئی بیماریاںصحت عامہ کے مسائل میں اضافہ کرتی ہیں۔دوسری جانب جوہری ہتھیار وںکی دوڑ کے نتیجہ میں ،فضا میں موجود مختلف قسم کی نقصان دہ گیسیس نے بھی صحت عامہ کے مسائل کو بڑھایا ہے۔ وہیں کھانے پینے کی اشیاء میں زہریلی اور حد درجہ نقصان دہ چیزوں کی ملاوٹ بھی بیماریوں کے فروغ کی بنیادی وجہ ہے۔مسائل کے حل میں جہاں ایک جانب ملکی و عالمی سطح پر منصوبے اور پروگرام مرتب کیے جارہے ہیںوہیں اُن طریقوں کو اختیار کرنے پر بھی زور دیا جا رہا ہے جن کے ذریعہ نہ صرف صحت عامہ کے مسائل کم ہوں گے بلکہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ختم بھی ہوجائیں گے۔
غالباً اسی پس منظر میں ملک عزیز ہند میں برسراقتدار نظریاتی جماعت نے اعلان کیا ہے کہ 21جون 2015کو’عالمی یوگا دیوس’منایا جائے گا۔یوگا کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اس طریقہ سے صحت عامہ کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔چند آسن ہیں اور اس کا مخصوص طریقہ،اگر اس پر پابندی سے عمل کیا جائے تو نہ صرف روز مرہ کے مسائل بلکہ وہ تمام پیچدہ مسائل بھی حل ہو جائیں گے جن کا علاج موجودہ دور میں ایک سخت ترین مرحلے سے کچھ کم نہیں ہے۔ممکن ہے ماہرین یوگا کی بات صحیح ہو لیکن یوگا، یوگ آسن،یوگا کا عالمی دن اور یوگا کے عالمی دن منانے کے سیاسی بیانات نے نہ صرف اِس دن کو بلکہ اُس طریقہ کو بھی مشکوک بنا دیا ہے جس کی تقاریب بڑے زور و شور سے منانے کی تیاریاں جاری ہیں۔
معاملہ اُس وقت سرخیوں میں آیا جبکہ کہ بی جے پی کے رہنما یوگی آدتیہ ناتھ نے وارانسی میں متنازعہ بیان دے ڈالا۔آدتیہ ناتھ نے کہا ہے، جو لوگ سورج کوسلام کو نہیں کرتے ہیں انہیں سمندر میں ڈوب جانا چاہیے،جنہیں یوگا سے گریز ہے انہیں ہندوستان کی سرزمین چھوڑ دینا چاہئے،جولوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں ان کو سورج سے کبھی روشنی نہیں لینا چاہیے اور گھرو ںمیں بلو ںمیں اندھرے میں قید رہنا چاہئے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ،یوگا ،گیتا یا سوریہ نمسکار(سورج کوسلام )کی اہمیت کو جو نہیں جانتے وہ اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں اورایک تنگ ذہنیت کے لوگ فرقہ پرستی کے دائرے میں قید کرنے والے ہندوستان کی رشی روایت کی توہین کر رہے ہیں۔اس موقع پر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یوگی آدتیہ ناتھ وارانسی میں گورکھپور کے ایم پی ہیں اور ایک پروگرام کے اختتامی سیشن میں انہوں نے یہ گفتگو کی ہے۔
Yoga
یوگا سے متعلق دنیا میں فی الوقت جو رجحانات پائے جاتے ہیں آئیے ان کا بھی سرسری جائزہ لیتے چلیں۔ امریکہ میں رہنے والی ایک مسلمان خاتون فریدہ حمزہ نے گذشتہ دو سال تک یوگا کرنے کے بعد اسے سکھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتی ہیں”جب میں نے اپنے اہل خانہ اور بعض دوستوں کو اس بارے میں بتایا تو ان کا رد عمل مثبت نہیں تھا۔ وہ کافی حیران تھے کہ آخر میں ایسا کیوں کر رہی ہوں ؟کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ اسلام کے بعض اصولوں کے منافی ہو”۔دنیا بھر میں کئی مسلم، عیسائی اور یہودی یوگا کے بارے میں اس طرح کے شکوک ظاہر کرتے ہیں۔ وہ یوگا کو ہندومت اور بدھ مت سے متعلق ایک قدیم روحانی عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
گذشتہ سال برطانیہ کے ایک چرچ میں یوگا کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس چرچ کے پادری جان چینڈلر کا کہنا ہے کہ”یوگا ایک ہندو روحانی ورزش ہے۔ ایک کیتھولک چرچ ہونے کے ناطے ہمیں عیسائیت کی تشہیر کرنی چاہیے”۔مسیحی تنظیم نیشنل سینٹر فار لاء اینڈ پالیسی کے صدر ڈین برائلز بتاتے ہیں کہ مغرب میں بہت سے لوگ یوگا کو غیر مذہبی اس لیے مانتے ہیں کیونکہ یہ منطق کو فروغ دیتا ہے۔ وہ بتاتے ہیںکہ پروٹسٹنٹ عیسائی الفاظ اور ایمان پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جبکہ اشٹانگ یوگا میں مشق اور تجربہ کی بات کہی گئی ہے۔ہندو تنظیمیں بھی یہ تسلیم کرتی ہیں کہ یوگا کے کچھ تصورات دوسرے مذاہب کے ساتھ متصادم ہو سکتے ہیں لیکن یہ ہندو مذہب کے بعض عقائد کے ساتھ بھی متصادم ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ میں بھی پادری یوگا کو ‘شیطانی’ عمل قرار دے چکے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ملک عزیز ہند میں سپریم کورٹ جلد ہی اس بابت فیصلہ دینے والی ہے کہ آیا یوگا درحقیقت ایک مذہبی رسم ہے؟
گزشتہ ماہ ہندوستان میں یوگا کے حامیوں نے عدالت سے اسے تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ بنانے کی اپیل بھی کی تھی لیکن عدالت اس مسئلے پر اقلیتی طبقے کی رائے لینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔تو کیا یوگا بنیادی طور پر ایک مذہبی عمل ہے؟ کئی ہندوؤں کے مطابق یوگا کے ذریعہ آپ فطرت سے صحیح شکل اور اس کی اصلی حالت کے بارے میں جان سکتے ہیں، جبکہ کئی اسے پیدائش اور موت کے بندھنوں سے نجات حاصل کرنے کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔یہ سب عیسائیت، اسلام اور دوسرے مذاہب میں درست ہے یا نہیں یہ ایک بحث کا موضوع ہے۔مثال کے طور پر ‘سوریہ نمسکار’ یا سورج کو سلام مختلف قسم کی جسمانی ورزش کا ایک مرکب ہے تاہم یہ ہندو دیوتا سورج کی پرستش سے بھی جڑا ہوا ہے۔ریبیکا فرنچ بتاتی ہیں’یہ قدرے مذہبی ہے، لیکن یہ آپ کے نقطہ نظر پر منحصر ہے۔ گھٹنے ٹیکنے سے عبادت بھی مراد لی جا سکتی ہے اور میں یہ بھی سوچ سکتی ہوں کہ میں تو صرف جھک رہی ہوں’۔
Sun
اسلامی نقطہ نظر سے سورج کی اہمیت کو جاننے کی کوشش کریں تو قرآن حکیم کی بے شمار آیات میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔اور یہ وضاحت وصراحت اس لیے بھی موجود ہے کہ نہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بلکہ اس سے قبل بھی ہر زمانے میں سورج کو خدائیت میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔لہذا قرآن کریم کی آیات واضح کرتی ہیں کہ سورج دراصل اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے ،اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔حضرت ابراہیم کے تذکرے میں کہا گیا ہے :”پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب ، یہ سب سے بڑا ہے۔
مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیم پکار اٹھا” اے برادرانِ قوم ، میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔(الانعام:٧٨)”۔دوسری جگہ فرمایا:”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ۔ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کر دے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے ، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے( الحج:١٨) “۔ایک اور جگہ فرمایا:”میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے،شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے اور انہیں شاہراہ سے روک دیا ، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے”(النمل:٢٤)۔پھر اللہ نے اپنی بادشاہی کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا :”وہ دن کے اندر رات اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا ہے۔ چاند اور سورج کو اس نے مسخر کر رکھا ہے۔
یہ سب کچھ ایک وقتِ مقرر تک چلے جارہا ہے۔ وہی اللہ (جس کے یہ سارے کام ہیں) تمہارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ کے مالک بھی نہیںہیں”( فاطر:١٣)۔ اور یہ بھی کہا کہ :”اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو”(السجدہ:٣٧)۔یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں ۔کہ تم یہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے۔
بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی اور اس کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیاء علیہم السلام جس توحید خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امر واقعی ہے۔ گفتگو کے پس منظر میں پس سب سے بلند کوئی مقام ہے تو وہ خدا اور اس کی مخلوق کی حقیقی حیثیت سے روشناس ہونا ہے۔ساتھ ہی خدا اور اس کے بندوں کے مقرر ہ اور طے شدہ فرائض کی ادائیگی میں ہم تن مصروف عمل رہنا ہے۔ان دو اعمال کے نتیجہ میںیقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ فرد بھی اور قوم و ملت بھی ہر قسم کی ظاہری و باطنی بیماریوں سے محفوظ ہو جائیں گے!
Mohammad Asif Iqbal
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com