ابھی تقدیر سے دامن چھڑا کر چل نہیں سکتے بڑے کمزور ہیں سر بھی اٹھا کر چل نہیں سکتے ابھی حالات سے آنکھیں ملا کر چل نہیں سکتے ابھی اندھی مسافت وقت کی درپیش ہے ہم کو ابھی تقدیر سے دامن چھڑا کر چل نہیں سکتے ہمیں تو ذات کے کرب و بَلا نے مار ڈالا ہے کِسی کی یاد کو دل سے لگا کر چل نہیں سکتے دیارِ شوق میں اُلفت بھری راہوں کے متوالے وصال و ہِجر کے فِتنے جگا کر چل نہیں سکتے شبِ تاریک کے آشفتہ ساماں راہرو ساحل خیال و خواب کی شمعیں بجھا کر چل نہیں سکتے