علماء کرام نے فقہ کو اہمیت کیونکر دی ہے؟ اسلام تو عمل کا پرتائو ہے نہ کہ فقہ ہے،اس میں کوئی شک نہیں دین کے اجزاء میں فقہ کو غیر معمولی مقام حاصل ہے تاہم عملی زندگی میں ایک مسلمان سے بہتر اخلاق و برتائو مطلوب ہے کہ وہ اس صفت کا حامل ہونا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمۖ کے ارشاد سے ثابت ہوتاہے کہ حقیقی مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔مسلم معاشرے میں معاملہ کرتے ہوئے بہت سے اخلاقیات سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن کو دور کرنا ہر مسلم پر ضروری ہے۔ایک دوست لندن میں سکونت پذیر ہے،اس نے مجھے بتایا کہ وہ دل کی بیماری میں مبتلا ہوا تو اس کے پاس کوئی نہیں تھا یہاں تک کہ ایمبولینس کو بلانے یا کسی پڑوسی سے مدد مانگنے کی قدرت بھی نہیں رکھتاتھا۔کیونکہ وہ کا ماحول ایسا ہے کہ پڑوسی ایک دوسرے کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر اچانک ایک دوسرے کو دیکھ لیں تو مسکرا کر گزر جاتے ہیں۔
جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق کو کھول کھول کر بیان کیا ہے یہاں تک آقائے نامدارۖ فرماتے ہیں کہ جبرائیل نے اس قدر پڑوسیوں کے بارے میں وصیت کی کہ مجھے شک ہونے لگا کہ اس کو وراثت میں حصہہ بھی دیاجانے کا حکم وارد ہوگا۔گویا اس قدر زیادہ پڑوسیوں کے حقوق بیان ہوگئے تھے کہ لگتاتھا کہ وہ صاحب جائداد کے مال میں سے حصہ کا حقدار ٹھہرادیاجائے گا۔اسلام نے تو اچھے معاملہ کی تلقین کی ہے کہ اولاد اور والدین کے مابین معاملہ اچھا ہونا چاہیے ،بھائیوں کے درمیان،استاد و شاگردوں کے درمیان معاملہ بہتر ہونا چاہیے ،اسلام نے خرید و فروخت کے وقت کے بھی رواداری و رحم دلی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔میاں بیوی کے مابین الفت و مانوسیت کا حکم ہے کہ ایک دوسرے کے مقام و مرتبہ کے معترف بن جائے ۔بعض لوگ یہ کہتے دیکھے گئے ہیں کہ مسیحیت و بدھ مت میں اعلیٰ اخلاق کی تلقین کی گئی ہے ہم بتانا چاہتے ہیں جس اہتمام کے ساتھ اسلام نے اخلاقی اصولوں کو بیان کیا ہے اس کی مثال پیش کرنا محال ہے اورہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں رسول اللہۖ کے بلند پایہ اخلاق ہونے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ’وانک لعلی خلق عظیم’۔
جہاں تک بات ہے فقہ کی تو اسلام نے اس میں تمام صفات حسنہ کو بیان کردیا ہے کہ فقہ میں زندگی کے مختلف گوشوں سے متعلق احکامات قرآن کریم اور احادیث نبوی کی روشنی میں واضح کردئیے گئے ہیں۔ احکامات میں نماز سے پیشتر پاکی حاصل کرنے کا حکم ہے یعنی وضو کو فرض قراردیا گیاپس ہمیں جاننا چاہیے کہ اسلام میں زہد و ورع اور خشوع اور خضوع کی کوئی کیفیت بغیر صفائی کے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔کھلی بات ہے کہ اسلام نے تمام ارکان کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کردیا ہے۔اسلامی فقہ میں جو احکام وارد ہوئے ہیں ان کی ایک جھلک نظر قارئین ہے کہ اس میں عبادات کو بیان کیا گیا ہے جس میں پہلی قسم میں پاکی،نماز،زکاة ،روزہ ،حج ،نذر اور ہر وہ احکام ذکر کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ اللہ کے ساتھ انسان کا تعلق مستحکم ہو۔دوسری قسم میں معاملات زندگانی کا بیان ہے جس میں لوگوں کے ساتھ لین دین اور عہد و پیمان وغیرہ کے طرق کو ذکر کیا گیاہے۔تیسری قسم میں لوگوں کے ذاتی احوال کا تذکرہ ہے جس میں نکاح،طلاق ،حسب و نسب،نان نفقہ، وصیت و وراثت کے امور شامل ہیں۔چوتھی قسم میں حکومت و امارت کو چلانے کی ہدایت کی گئی ہے کہ حکمران رعایا کے حقوق و واجبات کو اس طرح نبھائے۔
پانچویں قسم میں سزائوں کا بیان بھی فقہ اسلامی میں کردیا گیاہے کہ سنگین جرم کی سزامیں حد کیسے نافذ ہوگئی اور معمولی جرائم میں کیا سزادیجائے گی۔چھٹی قسم میں جہادکی اہمیت و مسائل کو بیان کرنے کے ساتھ لشکر کی ترتیب اور جنگ بندی کے اصول اور قیدیوں اور حاصل شدہ مال غنیمت میں کس طرح تصرف کیا جائے ۔ساتویں قسم میں اعلیٰ اخلاق و ادب کا پیکر ہونے اور اچھے رویہ روارکھنے کا حکم دیا گیاہے۔آٹھویں قسم میں گواہی اور عدالت کے اصول و ضوابط کو بیان کرنے کے ساتھ نظام عدل کو لوگوں کے درمیان انصاف سے قائم کرنے کا حکم موجودہے۔نویں قسم میں مال و متاع کا ذکر کیا جاتاہے اور اس میں لوگوں کے انفرادی حقوق مالیت کو بھی بیان کیا جاتاہے اور لوگوں پر ملک و ریاست کیا کیا حق ہے اس کو بھی واضح کردیا گیا ہے جیسے خراج وغیرہ۔
مذکورہ بالاکلام کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام نے انسانی زندگی کے جمیع مراحل کے احکامات کو مکمل تفصیل کے ساتھ احاطہ کیا ہواہے۔گویا اسلام نے کوئی چھوٹی و بڑی بات ایسی نہیں چھوڑی جس کی حاجت انسانوں کو ہو اور اس کو مبہم چھوڑدیاگیاہو۔جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عدالت یعنی انصاف اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتاتاوقتیکہ جج عادل نہ ہواور دین میں واضح کردیا گیا ہے کہ چیف جسٹس اور جج ہرطرح کی تہمت سے آزاد اور امانت دار ہونا چاہیے۔اسی لیے لوگوں کے مجموعہ کو مقرر کرکے جج بننے کے ادب و آداب اور شرائط و ضوابط کی پابندی کو ضروری قراردیا جاتاہے تاکہ عدل و انصاف کا نظام امانت و دیانت کے ساتھ جاری و ساری رہے ۔اسی طرح میاں بیوی کے حقوق بھی بین انداز میں موجود ہیں البتہ یہ انسان پر ہے کہ وہ اچھے اخلاق کو اختیار کرکے ان کی حفاظت کرتاہے یا نہیں۔
ہم یہاں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلامی اخلاق و آداب فقہ اسلامی سے جدانہیں ہوسکتے۔یعنی اسلام نے نکاح و طلاق کے طریقہ کو خوب صورت پیرائے میں بیان کردیا ہے مگر اب تک لوگ برے انداز کو روارکھتے ہوئے گھروں اور خاندانوں کو توڑنے کا سامان کررہے ہیں جس کے باعث ان کے درمیان سکون آہی نہیں سکتا۔اسی طرح جج کے اوصاف بھی مقرر ہیں ،اور جج مقرر کرنے کے اصول بھی مگر جج کو دیکھیں تو وہ فساد پربا کرنے میں معاون نظرآتاہے گویا اس میں ایمان کی شائد کمی ہے؟اسی طرح خرید و فروخت کے اصولوں کو بھی فقہ میں بیان کردیا گیاہے مگر لوگ پھر بھی دوسروں کا مال چوری کرنے میں مصروف عمل ہیں اور سود کھاتے ہیں اور حرص و لالچ کی بھٹی میں پختہ ہوچکی ہے یہ ایمان کی کمزوی کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں اخلاق شریعت کا اہم جزء ہے جس کی تکمیل فقہی احکام کے ذریعہ ہوتی ہے تو کیا لوگوں نے اس کو صحیح طورسمجھ لیا؟!