پاکستان آجکل بارش کی تباہ کاریوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔سندھ بالخصوص بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ ہے۔کراچی کا حال سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔کتنے دنوں سے پانی سڑکوں پر کھڑا ہے جبکہ گلیاں ،بازار اورگھر پانی کے تالاب بنے ہوئے ہیں ۔بے کس عوام کھلے آسمان تلے اپنی قسمت کو رو رہے ہیں لیکن ان بے یارو مددگار عوام کا کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے۔نہ پینے کا پانی اور نہ ہی نکاسیِ آب کا کوئی انتظام ہے ۔بجلی گھنٹوں کے حساب سے غائب ہو جاتی ہے۔چھوٹے چھوٹے معصوم اور شیر کوار بچے بھوک اور پیاس سے بلکتے ہیں تو ان کی مائیں انھیں کس طرح تسلی دیتی ہوں گی تصور ے ماوراء ہے۔کھانے پینے کی اشیاء کی قلت اپنی جگہ انتہائی اہم ہے جبکہ بے روزگاری کا طوفان غریبوں کوخو د کشیوں پر مجبور کر رہا ہے۔غریب کا چولہا نہیں جل رہا کیونکہ تندو تیز بارش میں دھاڑی کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا۔وہ جن کا دارو مدار ہی روز مرہ کی دیہاڑی پر ہے وہ اپنے بچوں کا کہاں سے کھلائے گا؟ایک عجیب طرح کی ابتری ہے جو کہ کراچی کے عوم کا مقدر بنی ہوئی ہے اور ان کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی ۔عوام احتجاج کر رہے ہیں اور اپنے بچوں کے لئے خوراک کے طلبگار ہیں لیکن جواب میں انھیں لمبے لمبے بھاشن سننے کو ملتے ہیں۔کوئی ان کی اشک شوئی نہیں کرتا بلکہ قائدین کے بیانات ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کررہے ہیں ۔کراچی کی ساری بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھار کرتی رہی ہیں جس سے عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھتے جا رہے ہیں ۔ عوام عملی اقدامات چاہتے ہیں تا کہ ان کے بچے بھوک ننگ اور پریشانی کے عذاب سے نجات پا سکیں ۔ہمارے حکمران شائد گونگے اور بہرے ہیں تبھی تو عوام کی دہائی بھی انھیں سنائی نہیں دیتی۔
سوال کسی ایک جماعت کا نہیں ہے بلکہ اس حمام میں ساری جماعتیں ہی ننگی ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ کراچی پر ایم کیو ایم کا راج تھا ۔بھتہ خوری ، بوری بند لاشیں اغوا برائے تاوان اور جگا ٹیکس روزمرہ کا مامول تھے۔صوبائی حکومتیں ایم کیو ایم کے سامنے بے بس تھیں کیونکہ ان کے اقتدار کی کنجی ایم کیو ایم کے ہاتھوں میں تھی۔١٩٩٤ میں پی پی پی کے فوجی اپریشن کے ذریعے اس جماعت کو بے بس کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ١٩٩٩ کے فوجی شب خون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اپنی سیاسی حمائت کی خاطر ایم کیو ایم کو جس طرح نئی زندگی عطا کی تھی اس سے یہ جماعت اپنے آپے سے باہر ہو گئی تھی۔اس نے کراچی میں جس طرح اودھم مچایا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بھتہ کے نام پر اربوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن بجھوائے جاتے تھے جس کا اعتراف ایم کیو ایم کے کرتا دھرتوں نے بھی کیا ہے۔مئی ٢٠٠٧ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ کراچی ائر پورٹ پر جو کچھ ہوا وہ ایک انتہائی بے رحم اور شرمناک باب ہے۔
وکلا ء کو زندہ جلایا گیا لیکن اس کے باوجود اس جماعت سے کوئی باز پرس نہ کی گئی ۔ایسے ماحول میں کیا کوئی ترقیاتی کام کئے جا سکتے ہیں؟جہاں مقصد عوام کو لوٹنا اور ان کی دولت چھننا ہو وہاں پر عوامی کے ترقیاتی کاموں کی جانب کون دھیان دے گا؟الطاف حسین کی بے سرو پا تقریرں عوام سننے کے لئے مجبور تھے کیونکہ الطاف بھائی کی ناراضی حکومت رخصتی کا جواز بن سکتی تھی لہذا سے ناراض کرنا سیاسی طور پر ناممکن تھا۔شائد یہی وجہ تھی کہ ایم کیو ایم دن دھاڑے لوٹ مار اور قتل و غارت گری میں مصروف تھی اور کوئی ان کی جانب دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔پی پی پی بھی خطاوار ہے کہ اس نے ایک ایسی جماعت سے اتحاد کیا جس کے دھشت گرد ہونے میں کسی کو کوئی شک وشبہ نہیں تھا۔پی پی پی ایک عوام دوست جماعت ہے لہذا اسے اس طرح کی جماعتوں سے اتحاد سے قبل سو دفعہ سوچنا چائیے تھا کہ وہ حکومت سازی کی خاطر کس جماعت کی حمائت کی طلبگار ہے ۔سیاسی اختلافات ہونا کوئی حیران کن بات نہیں ہوتی لیکن ایسی جماعتوں سے جن کی شہرت بھتہ خوری ،قتل وغارت گری اور دھشت گردی ہو اس سے کسی بھی حال میں ہاتھ نہیں ملایا جا سکتا ۔اقتداری سمجھوتے جماعتوں کو کمزور کرتے ہیں۔
۔پی پی پی مسلم لیگ (ق) کو بے نظیر بھٹو کا قاتل سمجھتی تھی لیکن جب آصف علی زرداری نے ٢٠١٠ میں اس جماعت کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ کیا تو پی پی پی کو پنجاب میں نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا ۔پی پی پی کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیبا ب تو ہو گئی لیکن اس الحاق سے اسے جو زک پہنچی اس کا مدواآج بھی ممکن نہیں ہو سکا۔سیاست اصولوں کی پاسداری مانگتی ہے لیکن اگر سیاستدان اپنے ہی الفاظ سے رو گردانی کرنے لگ جائیں تو پھر ان کی اخلاقی قوت ماندھ پڑ جاتی ہے اور وہ عوام کی نگاہوں میں گر جاتے ہیں۔سیاستدا ن اسے سیاسی مہارت کا نام دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ محض دل کو خوش رکھنے کی باتیں ہوتی ہیں ۔ عوام اپنے قائدین سے اعلی کردار کی توقع رکھتے ہیں لیکن جب اس توقع کو روندھ دیا جاتا ہے تو قائدین خود بخود عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن جاتے ہیں جس کا اظہار عوام اپنے ووٹ سے کرتے ہیں۔،۔
پی ٹی آئی حکومت کے وزیرِ قانون فروغ نسیم اسی الطاف بھائی کے چہیتے تھے اور غداری کیس میں آئین شکن جنرل پرویز مشرف کے وکیل تھے لیکن کسی کو اس سے کیا غرض کہ ماضی میں کوئی کیا تھا۔؟ ایم کیو ایم آج پی ٹی آئی کی اتحادی ہے حالانکہ اس کے سارے ایم این اے اسی الطاف بھائی کے چرنوں میں بیٹھتے تھے جن کی ایک للکار پر پورا کراچی بند ہو جاتا تھا۔عمران خان اپنا سوٹ کیس لے کر لندن گے تھے تا کہ ایم کیو ایم کی کالی کرتوتوں سے پردہ اٹھائیں لیکن آج اسی الطاف بھائی کے سارے چیلے ان کی حکومت کے اہم ستون ہیں۔یہ ستون ہل جائیں گے تو ان کی حکومت لرکھڑا کر زمین بوس ہو جائے لہذا وہ ان ستونوں کو کسی بھی حالت میں خود سے علیحدہ کرنے کا تصور نہیں کر سکتے ۔ انھیں ایم کیو ایم کی حمائت چائیے بھلے یہ جماعت ماضی میں قتل و غارت گری اور دھشت گردی میں ملوث ہی کیوں نہ رہی ہو۔اقتدار جب پہلی ترجیح بن جائے تو پھر سچ اور جھوٹ کی پہچان مٹ جاتی ہے۔انسان اقتدار کی خاطر سمجھوتے کرتاچلا جا تا ہے اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے جب اس کے یہ سمجھوتے اسے لے ڈوبتے ہیں۔
ایم کیو ایم کی بنیاد ہی بلیک میلنگ پر رکھی گئی ہے لہذا یہ جماعت آج بھی حکومت کو بلیک میل کر رہی ہے۔غیبی اشارے بھی ایم کیو ایم کو فی الحال حکومت کا حصہ بنے رہنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ابھی کل ہی وزیرِ اعظم عمران خان نے سندھ حکومت کے اشتراک سے کراچی کیلئے ١١٠٠ (گیارہ سو )ارب کے ایک نئے پیکج کا اعلان کیا ہے لیکن کیا یہ اعلان محض اعلان ہی ہو گا یا ھقیقت میں کراچی کو یہ پیکج دیا بھی جائے گا۔عمران خان کی دو سالہ کارکردگی تو یہی بتاتی ہے کہ ان کی حکومت اعلانات میں بڑی فرا خ دل ہے لیکن یو ٹرن لینے کو بھی اپنی مہارت گردانتی ہے۔اس سے پہلے بھی کراچی کے لئے ایک اہم پیکج کا اعلان ہوا تھا لیکن ابھی تک کراچی والوں کے حصے میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں آئی ۔ان کی ویرانی آج بھی پہلے جیسی ہی ہے ۔ہماری دعا ہے کہ کراچی والے جس عذاب سے گزر رہے ہیں وہ اس سے جلد نجات پا جائیں لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ سیاست اب عبادت نہیں بلکہ تجات بن چکی ہے۔عوامی فلا ح و بہبود کی بجائے ارتکازِ دولت اور اقتدار کا تسلسل ہمارے حکمرانوں کی پہلی ترجیح قرار پائی ہے ۔،۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال