١٦ دسمبر ہر سال آتا ہے اور ہر سال مجھے بہت سے اور لوگوں کی طرح دکھی کر دیتا ہے اے پی ایس کے بچوں کا دکھ شامل ہونے کے بعد یہ سال پہلے سے بھی زیادہ غمگین کر دیتا ہے اس روز یوم شہدائے اے پی ایس اور یوم شہدائے مشرقی پاکستان کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ یہ دن دہشت گرد بھی پاکستان کو کچوکے لگانے کی بھرپور کوشش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ پاک شیطان کے شر سے بچائے۔
میں اس وقت پندرہ سال کا تھا۔دسمبر کی طویل سرد راتوں میںے میں لٹکائے باغبانپورے گجرانوالہ کی گلیوں میں پھرتا۔رات کو شکر گڑھ کی جانب سے آنے والے مہاجرین کی ٹرالیوں میں سے سامان اٹھاتے اور ان کی مدد کرتے یہ رضا کار قومی جذبے سے سر شار تھے۔١٩٦٥ کی جنگ کو گزرے چند سال ہی ہوئے تھے۔بابا ابرا ہیم شیخ سے ہم جنگ کے بارے میں ماہرانہ تبصرہ مانگتے وہ چوک میں اپنی دکان میں بیٹھ کر ہمیں بتاتے کہ ہماری فوجیں توی کے پل کے پاس پہنچ چکی ہیں۔
ہم بابا جی سے پوچھتے توی جموں سے کتنا دور ہے ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ توی کا پل کراس کرنے کے بعد جموں آ جاتا ہے۔میں بہت سوال کیا کرتا تھا کہا چا چا جی کیا اس رات ہماری فوجیں توی پار کر جائیں گی وہ کہتے لئے گھنٹے دو گھنٹے کی مار ہے۔میں رات سویا سونی کے ریڈیوسے میں سننا چاہتا تھا کہ ہماری فوجوں نے توی پار کر لیا ہے وہ دشمن کو شکست دے کر جموں شہر میں داخل ہو گئیں ہیں۔لیکن افسوس یہ خبر نہ سن سکا۔مغربی پاکستان میں جنگ تین دسمبر کو شروع ہوئی قیصر ہند قلعے کو فتح کر لیا گیا تھا یہ قلعہ جنرل مجید ملک کی قیادت میں فتح ہوا۔اس دسمبر کی سیاہ راتوں میں دوستوں کے ساتھ مل کر دن میں شہری دفاع کی تربیت حاصل کرتے شام کو کھانا کھا کر گلیوں میں نکل جاتے کہیں لائٹ جل رہی ہو تو گھر والوں سے اپیل کرتے کہ جنگ میں آپ کی جانب سے کوئی چھوٹی سی غلطی ملک کا بڑا نقصان کر سکتی ہے۔یہ جنگ ہوئی کیوں ؟یہ سوال آج کی نسل ہم سب سے پوچھتی ہے؟
میں تو اس ہولناک دن کو یاد کر کے اب بھی اداس ہو جاتا ہوں۔اس روز آپا یاسمین فاروقی اور نوجوان احمد کی دعوت تھی وہ اس سولہ دسمبر کو شہدائے اے پی ایس کے نام سے منانا چاہتے تھے۔میں نے کہا اس دن شہدائے مشرقی پاکستان کو بھی یاد کیجئے۔میں اس ١٦ دسمبر کے سیاہ دن کو یاد کرتا ہوں تو دل دہل کے رہ جاتا ہے۔بے جی میری وردی استری کر کے رکھی ۔کوئلے والی استری کو سنبھال کر کہنے لگیں بیٹا تمہاری وردی تیار ہے۔میں بلک بلک کے رو پڑا اور کہا بے جی یہ وردی اب رہنے دیں ہم ہار چکے ہیں پاکستان کے مشرقی بازو پر ہندوستانی فوجوں نے قبضہ کر لیا ہے۔میری سادہ ماں اس لئے پریشان ہو گئیں کہ اس کا پاکستان پر فدا ہونے والا بیٹا غمگین ہے۔میں گھر سے مسجد مدنی چوک کی طرف بڑھا ۔ڈاکٹر شمس دین کی دکان پر آل انڈیا ریڈیو چل رہا تھا مکیش کی آواز میں گانے کی آواز میرے پردہ سماعت کو پھاڑ رہی تھی۔آج کسی کی ہار ہوئی ہے اور کسی کیجیت رے گائو خوشی کے گیت رے جھوم جھوم کے۔۔میرا جی چاہا کہ اس ریڈیو کو توڑ دوں لیکن یہ بھی ممکن نہ تھا۔بھینس کا چارہ لانا میری ذمہ داری تھی نہ میں نے کھانا کھایا اور نہ ہی میری بھینس نے۔
آج ٹاک شو میں برادر زاہد جھنگوی نے سوال کیا کہ مشرقی پاکستان سانحہ پر کچھ کہئے۔مجھے مشیر کاظمی کی نظم کا ایک بند یاد تھا۔جو لکھے دیتا ہوں چوبیس برس کی فرد عمل،ہر گھر زخمی ہر گھر مقتل،اے ارض وطن تیرے غم کی قسم ،تیرے دشمن ہم تیرے قاتل ہم پاکستان کے ٹوٹنے کی ابتداء کا ذکر کہاں سے کروں۔بنگالیوں کا پاکستان بنانے میں بڑا کردار تھا۔ان کی جد وجہد بھی عظیم تھی۔ادھر مغربی پاکستان میں آزادی کی لڑائی بھی زور سے لڑی گئی مگر وہاں زور شور سے معرکہ ہوا۔کہتے ہیں مجیب الرحمن جو بنگلہ بندو بنا وہ اپنے سائکل پر پاکستان کا پرچم لہرا کر نکلا تھا۔پھر راستے میں کیا ہوا اس کی جھلک اس کالم میں دیکھ لیجئے گا۔آئیے سچ بولیں ۔پاکستان بننے کے بعد جب پاکستان کی سرکاری زبان اردو قرار دی گئی تو بنگالیوں کو اس وقت احساس ہوا کہ ہم اس وفاق میں انگریزوں کی غلامی کے بعد مغربی پاکستانیوں کے غلام ہو گئے ہیں۔بنگالی زبان کوئی بانجھ زبان نہ تھی۔
اس زبان میں ادب ثقافت کی آمیزش تھی۔بنگال کے دریائوں میں نائو اور کھوئیے کی داستانیں تھیں رابندر ناتھ ٹیگور تھا شاعری تھی غزل تھی۔بنگال کے پانیوں کی داستانیں تھیں محبت تھی پیار تھا۔حسن بنگال بنگال کا جادو تھا اور شاعروں کے قلم ان کی کہانیوں کے امین تھے۔ان سے ان کی زبان چھین لی گئی۔بعد میں دالمملکت کراچی سے اسلام آباد آ گیا۔سچ پوچھیں تقسیم پاکستان میں ہمالائی غلطیاں تسلیم کی گئیں۔کشمیر کو جبرا بھارت کی جھولی میں دے دیا گیا۔قادیانی چودھری ظفراللہ پاکستان کو تحفے میں ملا اس نے گورداس پور بھارت کو دینے میں رضامندی ظاہر کی خونریزی ہوئی۔مشرقی پاکستان ایک ہزار میل دور تھا۔اسے نظرئیے کی رسی سے باندھنے کی کوشش کی گئی لیکن افسوس یہ ہے کہ اسلامی نظرئے کی روح کو قتل کیا گیا۔بنگالیوں کی غلط اردو اور ان کی سیاہ رنگت کو مزحیہ عنوان دے دیا گیا۔عرفات کے میدان میں دئیے گئے خطبے کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ان کے پستہ قد اور اردو کے انداز تکلم پر لطیفے بنا دئیے گئے۔
وہ کراچی کے موسم سے تو آشناء تھے لیکن اسلام آباد کی سخت سردی نے انہیں بیمار کر دیا ۔بنگالی بیرو کریسی کو احساس ہو گیا کہ ہم آزاد تو ہوئے مگر اس آزادی کے نام پر ہمیں غلام بنا لیا گیا ہے۔وہ ملک جو اسلام کے نام پر بنا تھا اسے زبان کے نام پر توڑا جا رہا تھا۔یہ اس لئے نہیں کہ بنگلہ زبان بولنے والوں نے کوئی غلط اقدام اٹھایاْبلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ اردو بولنے والوں نے ان کی حق تلفی کی۔ان پر اپنا کلچر نافذ کرنے کا جرم کیا۔بنگلہ دیش میں میں مقیم بہاری کمیونٹی جس نے اس کام میں حصہ لیا اس نے گرچہ بعد میں خون کے نذرانے دے کر اپنی غلطیوں کا ازالہ کیا۔البدر اور الشمس میں یہی نوجوان تھے۔جماعت اسلامی کی ریڑھ کی ہڈی تھے یہ لوگ۔جب نفرتوں کے بادل چھائے اور بنگالیبھارت کی جھولی میں جا بیٹھے تو ان نوجوانوں اور ان بہاریوں کی نسلوں نے لاجواب کردار ادا کیا جس کی قیمت وہ اب بھی چکا رہے ہیں۔ نفرتوں کو مہمیز دینے میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے ان بھارت نواز ہندئوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے ظلم کی داستانوں کے عنوان سے جھوٹے افسانے گھڑے۔بنگالی خواتین پر جنسی حملوں کی جھوٹی داستانیں گڑیں۔بعد کی تحقیات سے ثابت ہوا یہ سب کچھ فراڈ تھا جھوٹ تھا۔جس طرح عراق کے بخئیے اس جھوٹی کہانی سے جڑے ہوئے ہیں مشرقی پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عوامی لیگ انتحابات جیت چکی تھی۔لیکن اس میں یہ بات شامل کر لیجئیے کے مشرقی پاکستان میں انتحابات خونی تھے۔انتحابات سے پہلے جماعت اسلامی کا جلسہ الٹا دیا گیا تھا۔مغربی پاکستان سے جانے والے لیڈران کو قدم نہیں جمانے دیا جا رہا تھا۔
جال جالو آگن جالو کے نعرے بھی لگائے گئے۔ستر کے انتحابات میں قومی اسمبلی کی ٣٠٠ نشستوں سے عوامی مسلم لیگ کو ١٦١ نشستیں مل چکی تھیں۔صوبہ مشرقی پاکستان میں ٣١٠ صوبائی نشستوں میں عوامی لیگ ٢٩٨ نشستیں جیت چکی تھیں اس نے قومی اسمبلی کے لئے ایک کروڑ انتیس لاکھ سینتیس ہزار ایک سو باسٹھ (12937162) ووٹ حاصل کئے جب کے پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان سے اکسٹھ لاکھ ارتالیس ہزار نو سو تئیس (6148923) ووٹ حاصل کئے۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی کو اکیاسی نشستیں ملیں وہ سندھ اور پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کونسل مسلم لیگ،قیوم لیگ،جماعت اسلامی،جمیعت العلمائے اسلام،جمیعت علماء پاکستان کو بھی اسمبلی میں نشستیں ملیں۔
بھٹو نے یحی خان کو شیشے میں اتار لیا اس نے ذوالفقار علی بھٹو کو آئینے میں اتارا المرتضے لاڑکانے میں یحی خان خود گئے۔اور کہنے والے کہتے ہیں اگر لاڑکانے کے لان میں برگد کے درخت کو زبان ملے تو وہ بتائے گا کہ اسی کے سائے میں پاکستان کو توڑنے کا پلان بنا۔اس پر بہت لکھا جا چکا ہے لیکن میں نے جو دیکھا اور سمجھا اس کی بات کر رہا ہوں۔پاکستان کو توڑنے میں اگر میری بات سنی اور سمجھی جائے تو وہ ایک ٹرائکا کا کام ہے جو یحی خان،بھٹو،اور مجیب پر مشتمل ہے۔
پاکستان توڑنے میں چوتھا کردار اندرا گاندھی کا ہے۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ چاروں کا انجام عبرت ناک ہوا۔یحی خان اور اور اس کا کتا ہارلے سٹریٹ کے کسی گھر میں گمنامی کی موت مرے،بھٹو کو پھانسی ہوئی،مجیب اور اس کا خاندان بے دردی سے قتل کر دئے گئے یہ انجام تھا پاکستان کے قاتلوں گا۔
سولہ دسمبر کے اس سیاہ دن کو یاد کرتtا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ہماری بیوروکریسی ہر سال رونا روتی کہ مشرقی پاکستان کے سیلاب ہماری معیشت پر بوجھ ہیں۔آج بنگلہ دیشی ٹکے کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی دو ٹکے کی حیثیت نہیں ہے۔ہمیں ہمارے حکمران لوٹ لے گئے۔بھارتی بالا دستی اور زیادتیوں کے باوجود مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے ہم سے آگے نکل گیا ہے۔
بھٹو نے ٹوٹے ہوئے پاکستان کا اقتتدار سنبھالا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں پولینڈ کی قرار داد کو جب پھاڑا گیا تو اسی وقت پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے۔میں نے اپنی آنکھوں سے وہ اخبار دیکھا جس کی سرخی تھی ادھر تم ادھر ہم۔ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کو بدنام کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔جنرل ٹکا خان جو بعد میں پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے انہوں نے بندے نہیں زمین چاہئے کے نام پر جو کچھ کیا اس کا بھرنہ آپ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی پر نہیں ڈال سکتے۔جنرل نیازی نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ اس نے ہتھیار ڈالے۔لیکن میں اپنے قاری کو بتانا چاہتا ہوں۔قیدی نوے ہزار نہیں تھے۔یہ چھتیس ہزار تھے ان کے اہل خانہ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کی تعداد ڈال کر انہیں نوے ہزار بتایا گیا۔شکست شرمن ناک ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کچھ بھی ہو وہ ایک ایسے شخص کی رپورٹ تھی جو فوج سے کسی وجہ سے ناراض تھا۔
میں سمجھتا ہوں حقائق کو نئے سرے سے جانچنا ضروری ہے۔آپ کسی سینئر صحافی کے تھزیوں پر اپنی رائے قائم نہیں کر سکتے۔الطاف حسین قریشی ڈھاکہ فال سے پہلے ہمیں بتا رہے تھے کہ محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔مجیب شامی اور مجید نظامی بھی یہی کچھ بتا رہے تھے۔لیکن حقیقت یہ سامنے آئی کہ مشرقی پاکستان سلگ رہا تھا۔مجیب غدار تھا وہ اگرتلہ سازش کیس کا مجرم تھا جو ساٹھ کی دہائی میں پکڑی گئی تھی۔میاں نواز شریف صرف بغض فوج میں مجیب کو ہیرو بنا رہے ہیں۔ایسی کوئی حقیقت نہیں ہے مجیب اور بھٹو اور تیسرا لالچی جرنیل یحی یہ سب برابر کے مجرم ہیں اور چوتھی بیرو کریسی جس نے مشرقی پاکستان کو ہمیشہ بوجھ سمجھا۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔ہم نے اکہتر کی جنگ میں ساتھ دینے والے بہاریوں کو اکیلا چھوڑ دیا ہم نے پھانسیوں پر جھولتے لوگوں کو جماعت اسلامی کے بندے سمجھا اور ہم ایک بار پھر اسی جرم میں مبتلاہیں میں نے نے گلگت بلتستان،بلوچستان،سندھ کے دیہی علاقے،جنوبی پنجاب،ہزارہ کے پی کے میں وہی زیادتیاں شروع کر رکھی ہیں۔کے پی کے کی ساری ترقی صوابی،مردان،چارسدہ،پشاور کے لئے ہے ہزارہ جائے بھاڑ میں ،جنوبی اضلاع کو خصم کھا جائیں،جنوبی پنجاب میں ایک بندے کے اوپر چوبیس روپے خرچ کرتے ہیں اور لاہور میں چھبیس ہزار،اسی طرح سندھ کے اضلاع موئن جو دڑو کے دور میں زندہ ہیں۔بلوچستان کو تو سوتیلی ماں بن کر ملا جا رہا ہے۔پروفیسر عنائت علی خان نے کہا تھا حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر لوگوں کے دلوں پر پٹی باندھئے۔قومی وسائل پسماندہ لوگوں اور علاقوں پر خرچ کریں۔نئے صوبے بنائیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہوں گا کہ قومی اداروں کی تذلیل نہ کریں۔میں کیا لکھا کیسا لکھا دوستو اس غم کے دن کے موقع پر شہدائے مشرقی پاکستان اور پشاور کو لکھے دیتا ہوں وہ پہلا زخم بھارت کی مدد سے کیا گیا اور دوسرا بھی اسی کی جانب سے۔باغبانپورے کی گلی چودھری برخوردار کا لمبا تڑنگا سیٹیاں بجاتا،بتی بند کرو جی کی آواز لگاتے اس افتخار نے آج آپ سے دکھ بانٹا ہے ۔عرض مدعا یہ ہے کہ اس پاکستان کو بچا لو۔یہ اب بھی کشمیر،فلسطین اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا خواب ہے امید ہے ۔دوستو دیکھو یہ میرے زخم ہیں۔پاکستان زندہ باد۔