اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) عید سے ایک روز قبل پیش آنے والے پی آئی اے کے جہاز کے حادثے کی تحقیقات میں معاونت کے لیے ایئربس کی ٹیم پیر کو کراچی پہنچ رہی ہے۔ یہ سفر 97 افراد کے لیے موت کا پیغام لے کر آیا تھا۔
80 سالہ فضل رحمان اور ان کی 74 سالہ اہلیہ وحیدہ رحمان جب لاہور سے کراچی کے لیے پی آئی اے کی پرواز 8303 پر سوار ہوئے تھے اُس وقت انہیں سب سے زیادہ خوف کورونا وائرس سے تھا۔ اس خطرے کو مول لیتے ہوئے یہ دونوں عید کراچی میں منانا چاہتے تھے۔ یہ سفر اس جوڑے کے لیے موت کا پیغام لایا تھا۔ 54 سالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ دینے والے اس جوڑے نے یوں آخری سفر بھی ساتھ ہی طے کیا اور یہ دونوں ان 97 ہلاک شدگان میں شامل ہیں، جو پی آئی اے اوپریٹڈ ایئر بس 320 کے کراچی کے گنجان علاقے میں گرنے کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے۔
فضل رحمان کے بیٹے انعام الرحمان اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں،”ہم نے ڈاکٹروں اور گھر والوں کو متعدد کالز کیں، ہماری سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ کیا میرے والدین یہ سفر خیر خیریت سے طے کر پائے؟ ‘‘ عید پر اپنے والدین کو خوش آمدید کہنے کا ان کا خواب ایک بھیانک حقیت میں بدل گیا۔ ”پی کے 8303 کے حادثے کی خبر سنتے ہی میں نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی ایمبولنسوں اور دھوٍئیں کے بادلوں کے پیچھے گاڑی دوڑاتا رہا۔‘‘ انعام الرحمان کے بقول،” جب میں نے جائے حادثہ کا منظر دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ اگر میرے والدین بچ گئے تو یہ صرف اور صرف کوئی معجزہ ہو گا۔‘‘
کراچی کے جناح ایئرپورٹ کے مشرقی کونے کی طرف گنجان آبادی کی کثیرالمنزلہ عمارتوں کے بیچ و بیچ طیارے کے گرنے کے نتیجے میں زمین پر تاہم کوئی اموات نہیں ہوئیں۔ دو درجن سے زائد گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ جا بجا بجلی کے کیبلز پڑے نظر آ رہے تھے اور ملبے سے انسانی جسم کو برآمد کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ جہاز کا ایک ونگ ایک گھر کے کونے سے جا ٹکرایا اور انجن ایک قریبی گراؤنڈ میں پایا گیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق طیارے کے ایندھن نے گھروں کے ساتھ ساتھ ملبے کو خاکستر کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاہ گھنے بادل آسمان پر چھا چُکے تھے۔ انسانوں کا ایک ہجوم جائے حادثہ کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس گنجان علاقے کی سڑکیں اور رستے ایمبولنسوں، امدادی کارکنوں اور ملبے سے بھر چُکی تھیں۔ اپنے عزیز و اقارب، اپنے پیاروں کی زندگی کی آس و امید لگائے ان کے رشتے دار ملبے کے قریب سے قریب تر پہنچنے کی کوششیں کر رہے تھے۔
ایک امدادی کارکن نے خبر رساں ادارے رائٹرس کو بتایا کہ دو لاشیں آکسیجن ماسک کے ساتھ ملیں۔ ملبے کے نیچے سے نکالی جانے والی متعدد لاشیں قابل شناخت نہیں تھیں۔ ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹیو نے جمعے کو ہی کہہ دیا تھا کہ پائلٹ کے پیغام سے طیارے میں تکنیکی مسائل کی نشاندہی ہوگئی تھی۔
45 سالہ شاہد احمد اپنی ماں کا ا نتظار میں کراچی ایئرپورٹ پر کھڑا تھا۔ جہاز کریش کی خبر ملتے ہی وہ حادثے کی جگہ پر پہنچا۔ وہاں اسے ریسیکو ٹیم کے اراکین ملبوں کے نیچے سے مسافروں کی لاشیں باہر کھنچتے، انہیں نکالنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ جائے حادثے پر کچھ لوگ سلفیاں بنانے میں مصروف تھے۔ شاہد احمد اپنی 75 سالہ ماں کا استقبال کرنے وہاں پہنچا تھا۔ مضطرب احمد کے بقول،” وہاں پر کوئی بھی ذمہ دار نظر نہیں آ رہا تھا، لوگ تصویریں اور سسلفیز بنانے میں مصروف تھے۔‘‘ اپنی والدہ کو جائے حادثے پر نہ پانے کے بعد احمد نے ہسپتالوں کا رُخ کیا۔ آزمائش کی اس سخت گھڑی کا زکر کرتے ہوئے احمد بتاتا ہے،” کسی ہسپتال میں زخمی ہونے والوں کی کوئی فہرست میسر نہیں تھی۔ ہسپتالوں کی بد انتظامی اور افراتفری دیکھنے کے قابل تھی۔‘‘
اس ہولناک حادثے میں بچ جانے والے دو افراد میں سے ایک انجینیئر محمد زبیر نے مقامی میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا،”پائلٹ نے جہاز کو لینڈنگ کے لیے ایک بار زمین کو چھوا، پھر فوراً ہی جہاز دوبارہ اوپر اڑا۔ پائلٹ نے اعلان کیا کہ وہ ایک بار پھر لینڈنگ کی کوشش کرے گا تاہم اس اعلان کے چند لمحوں بعد ہی بچے، بڑے، معمر مسافروں کی چیخوں کی آواز کے ساتھ طیارہ کریش ہوگیا۔ مجھے آگ کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔‘‘
فضل رحمان کے بیٹے انعام الرحمان کا کہنا ہے کہ اُن کی پوری فیملی شدید صدمے کا شکار ہے۔ ان کے بقول،”ہمارے گھر کوئی عید نہیں۔‘‘ تاہم انہیں اس بات سے کچھ راحت مل رہی ہے کہ ان کے والدین ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ اب ان کا آخری سفر بھی ایک ساتھ مکمل ہوا۔