تحریر: عفت ان کے جھریوں بھرے چہرے پہ بچوں کی سی معصومیت تھی ۔کھچڑی سے سفید بالوں والا سر رعشہ سے ہولے ہولے ہل رہا تھا ۔لرزتے لب فضا میں غیر مررئی نقطے پہ مرکوز جانے کیا بڑبڑا رہے تھے ۔اماں جی اندر چلیں ؟سدرہ نے وہیل چیئر کو تھامتے ہوئے کہا ۔کما ل دین آج بھی نہیں آیا؟کب آئے گا ؟ بوڑھے وجود نے نگاہیں اٹھا کر لرزتے ہاتھوں کا چھجا بناتے کانپتے لفظوں سے پوچھا ۔آجائے گا اماں جی آپ اندر چلیں ٹھنڈ ہو رہی ہے اگر آپ بیمار ہو گئیں تو کمال دین ناراض ہو گا ۔سدرہ نے انہیں پیار سے بہلاتے ہوئے کہا ۔اچھا چلو اماں جی نے فورا رضا مندی ظاہر کی ۔سدرہ نے وہیل چئیر کو اندر کی طرف دھکیلا اور کمرے میں لے گئی ۔ہیٹر آن کر کے اس کمزور وجود کو بیڈ پہ منتقل ہونے میں مدد دی ۔کمبل ٹھیک کر کے اوڑھایا ۔آپ آرام کریں میں آپ کے لیے سوپ لے آئوں وہ مسکرا کے اماں جی کا ہاتھ تھپکتے ہوئے بولی ۔اماں جی کی سوچتی نظریں چھت پہ مرکوز تھیں ۔
میں پاگل نہیں ہوں مجھے جانے دو وہ بے قراری سے پرندے کی مانند تڑپ رہا تھا ۔اوئے ہر پاگل یہی کہتا میں پاگل نئیں چل آرام سے بیٹھ ۔مسٹنڈے سے وارڈن نے اس کو بیڈ پہ دھکیلا ۔چپ کر ورنہ لگاتا ہوں جھٹکے ۔جھٹکوں کا سن کر وہ سہم گیا اور خاموش ہو گیا ۔اس کی آنکھوں میں بے چارگی اور آنسو آگئے اماں جی مجھے بچا لو دل کی صدا دل میں گھٹ گئی ۔صبح سے ہی پاگل خانے میں ہلچل تھی ۔سب کو صاف ستھرا لباس دیا جا رہا تھا کمروں کی صفائی ہو رہی تھی ۔آج کیا ہے ؟کمال نے ساتھ والے احمد خان سے پوچھا ۔مڑا کوئی اپھسر آرہا ہو گا ۔ میرا گل جان کب آئے گا آئے گا دلبر خاناں ۔احمد خان کی ذہنی رو پل میں بدل گئی اور وہ اونچی آواز میں گانے لگا ۔کمال کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی ۔کچھ دیر میں سوٹٹڈ بوٹٹڈ دو آدمی گاڑیوں سے اترے ان کے ساتھ ساری ٹیم اور پاگل خانے کا عملہ فوج کی صورت معائنہ کروانے لگا ۔کمال موقع کی تلاش میں تھا جیسے ہی وہ سب اس کے کمرے میں آئے وہ جلدی سے آگے بڑھا ۔ ایکسکیوز می سر پلیز لسن ٹو می میں پاگل نہیں ہوں مجھے انہوں نے زبردستی یہاں رکھا ہوا ہے پلیز مجھے یہاں سے نکالیں ۔افسران اس کیطرف متوجہ ہوئے اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتے ۔نگران جلدی سے آگے بڑھا سر سب پاگل یہی کہتے ہیں یہ بہت خطرناک پاگل ہے اس کو شدید دورے پڑتے ہیں آپ آئیں ۔میں پاگل نہیں ہوں یہ جھوٹ بول رہا ہے کمال چیختی ہوئی آواز میں بولا وارڈن نے اسے قابو کرنے کی کوشش کی مگر وہ قابو میں نہیں آرہا تھا ۔
A Needle Arm
وہ چیختا رہا یہاں تک کہ ایک انجکشن اس کے بازو میں پیوست ہو گیا اس کی آواز دھیمی اور غنودہ ہوتی چلی گئی ۔ بانو بیگم ہم آپ سے شرمندہ ہیں امید ہے آپ ہمیں معاف کر دیں گی ۔نواب ہاشم خان سر جھکائے بانو بیگم کے سامنے کھڑے تھے ۔نواب صاحب اگر آپ لوٹ آئے ہیں تو ہمیں آپ سے شکوہ نہیں ،بانو بیگم نے وسیع القلبی سے کہا ۔نواب صاحب نے متشکرانہ نظروں سے بانو بیگم کو دیکھا ۔اور مڑ کر ارباب کو آواز دی وہ جھجکتا ہوا اندر آگیا ۔بانو بیگم یہ ارباب خان ہیں سلیمہ خاتون کے بیٹے وہ مرتے وقت انہیں ہمیں سونپ گئیں امید ہے آپ اپنا دل بڑا کریں گی ۔نواب صاحب نے ارباب خان کا ہاتھ تھام کر بانو بیگم کی طرف دیکھا ۔بانو بیگم نے شفقت سے ارباب کے سر پہ ہاتھ رکھا ۔اور سر ہلا دیا ۔ارباب دس سال کا تھا ۔جبکہ بانو اور نواب صاحب کا بیٹا کمال الدین ایک برس کا تھا ۔بانو بیگم کی بھرپور توجہ کے باوجود ارباب کے دل میں ان کے لئے نفرت بھری تھی وہ ان کو اپنی ماں کی موت کا ذمہ دار سمجھتا تھا ،اور اپنے سوتیلے باپ یعنی نواب صاحب کی دولت پہ اپنا حق سمجھتا تھا ۔وقت کے ساتھ ساتھ نفرت بڑ ھتی جا رہی تھی اس نے رو پیٹ کر بی اے کر لیا اور نواب صاحب اسے اپنے ساتھ لے جاتے تاکہ اسے کاروبار کی سمجھ بوجھ آجائے اور پھر وہ اسے سلیمہ کے شیئرز جو انہوں نے اپنے کاروبار میں شامل کیے تھے ایک جمے کاروبار کی صورت میں لوٹا دیں مگر ارباب کے ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا تھا اس کی نظر سارے کاروبار پہ تھی ۔
کمال ابھی چھوٹا تھا اسے ان باتوں کی کیا سمجھ تھی ۔اچانک بیٹھے بٹھائے نواب صاحب کے دماغ میں جانے کیا سمائی کاغان میں ایک ہوٹل کھولنے کا پلان کر ڈالا ۔جگہ دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے گاڑی کے بریک فیل ہوئے اور گاڑی بے قابو ہو کر گہرے کھڈ میں جا گری ۔بانو بیگم بیوہ ہوگئیں ۔ارباب کے راستے کا ایک کانٹا راستے سے ہٹ گیا تھا اب کمال اور بانو بیگم رہ گئے تھے مشکل یہ تھی کہ نواب صاحب کی باقی جائیداد اور کاروبار کمال اور بانو کے نام تھا ۔کمال بی بی اے کر رہا تھا وہ ایک سیدھا سادہ نوجوان تھا جو ارباب کو بڑے بھائی کی طرح تعظیم دیتا ۔ارباب کو اب فکر تھی کہ یہ نہ ہو تعلیم مکمل کرنے کے بعد کمال کاروبار کو سنبھالے اور اس کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکے ۔وہ ا وپری دل سے بانو بیگم کی بہت عزت کرتا ۔بانو بیگم بھی اس میں اور کمال میں فرق روا نا رکھتیں ۔کمال اب کاروبار میں دلچسپی لے رہا تھا اس کا آخری سمسٹر باقی تھا لہذا اب وہ اکثر آفس آجاتا اور فائلوں کو چیک کرتا ۔
اس دن ارباب کو کراچی جانا تھا اس کے جانے کے بعد بانو بیگم نے کمال سے کہا کہ وہ آفس دیکھ لے ارباب کو کچھ دن لگ جائینگے ۔یہ چند دن ارباب کے لیے کٹھن مرحلہ ثابت ہوئے اور کمال کی آنکھیں کھل گئیں ارباب جب واپس آیا تو کمال نے اس سے باز پرس کی ۔ارباب نے اس بات کو کمال کی غلط فہمی قرار دیتے ہوئے معاملے کی تفتیش کا کہا ۔کمال چپ ہو گیا مگر اسکے دل میں گرہ لگ چکی تھی ۔ارباب نے اب جلد اس قصے کو نبٹانے کے لیے ایک پلان سوچا اس نے ایک کیمسٹ سے دماغ کمزور کرنے والی دوا لی اور چپکے سے کمال کی خوراک میں شامل کرنی شروع کر دی ۔دوا کا اثر ہونے لگا اور کمال کا دماغ سن ہونے لگا اسے بلا وجہ ہی غصہ آتا اور وہ توڑ پھوڑ کرنے لگتا ۔بانو بیگم بہت پریشان تھیں،اس دن بھی کمال کو بہت بے چینی تھی وہ دل بہلانے کے لیے آفس چلا آیا ۔ارباب نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ کمال کا غصہ حد سے بڑھ گیا اس نے میز پہ پڑی ساری چیزیں ہاتھ مار کر گرا دیں اور میز پہ پڑا ایش ٹرے دیوار پہ دے مارا ۔ارباب نے جان بوجھ کر اپنا سر میز سے ٹکرا دیا اس کے سر سے خون بہہ نکلا ۔آفس کے لوگ اندر آئے ۔اور کمال کو پکڑا وہ غصے میں اول فول بک رہا تھا ۔
MENTAL HOSPITAL
اسے اسپتال لے گئے ارباب کی مرہم پٹی کروائی گئی۔کمال کو جنونی قرار دے کے پاگل خانے میں ڈلوا دیا جہاںعلاج کے نام پہ الیکٹرک شاکس نے اسکی حالت اور بھی غیر کر دی ۔ارباب کا پلان کامیاب ہو گیا تھا ۔بانو بیگم کو فالج کا اٹیک ہوا اور ان کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا ۔ارباب کو ساری دولت مل گئی مگر خداکی لاٹھی بے آواز ہے اپنی بے راہ روی اور عیاشی نے اسے ایڈز جیسے مہلک مرض کا تحفہ دے دیا ۔آج جب ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اب وہ چند دنوں کا مہمان ہے تو اسے خدا یاد آیا ۔کمال کو واپس لا کر اس کی دولت اسے دے کر وہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا ۔پاگل خانے کے انچارج نے کمال کو بلا کر ارباب کے حوالے کیا ۔ارباب اسے خاموشی سے گھر لے آیا ،بانو بیگم اور کمال کے پائوں پکڑ کر اس نے معافی مانگی اور تھکے قدموں سے اسپتال روانہ ہوگیا جہاں سے اسے اگلی منزل جانا تھا نہ لوٹنے کے لیے۔۔۔ختم شد