تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم فیس بک کا اکائونٹ اوپن کیا تو ایک پوسٹ پہ نظر پڑی جس میں ثبوت کے ساتھ قلم چور کی چوری کو دوستوں کے سامنے رکھا گیا پوسٹ شیئر کرنے والے نے ساتھ لکھا ”دوستوں یہ کالم دیکھیں اور بتائیں کہ اصل رائٹر کون ہے۔ میرے کالم کا پہلا پیراگراف چھوڑ کر باقی پڑھیں۔ یہ غلطی کس کی ہے”یہ پوسٹ ہمارے پیارے دوست کالم نگار عقیل خان نے لگائی ان کی یہ تحریر مزدورڈے کے حوالہ سے تیس اپریل اور یکم مئی کو پاکستان بھر کے قومی و علاقائی اخبارات میں پبلش ہوئی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی تحریر یکم مئی کوروزنامہ” باد شمال” گلگت بلتستان میں شایان رضا بیگ اور روزنامہ ”سلام ” میںرضا بیگ انجم نامی قلم کاروں کے نام سے پبلش ہوئیں یعنی تحریر ایک اور اس کے تین دعویدار سامنے آئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان تینوں میں سے جو اس تحریر کا اصل مالک ہے وہ ڈھکا چھپا نہیںکیونکہ یہی تحریر تیس اپریل کویواین این پاکستان داٹ کام پہ شائع ہوئی وہی اس کا اصل حق دار ہے اور جو چور ہیں وہ بھی سامنے ہی ہیں یہ غلطی کس نے کی اور کہاں ہوئی یہ سمجھنا نہایت آسان اور واضح ہے
پیارے دیس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے شمار قسم کے چور پائے جاتے ہیں جیسے بجلی چور،ٹیکس چور،کام چور،دل کاچور(چوروں کی یہ رومانوی قسم عام طور پہ پاکستانی اور انڈین فلموں میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے)پانی چور،الیکشن کے نتائج چرانے والے چورپچھلے چند ماہ سے نئے چور بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو سادہ لوح عوام کو موبائل پہ میسج کر کے لوٹتے ہیں جو سادہ لوح لوگوں کو انعام کی نوید سنا کر لوٹتے ہیں انہیں ہم” انعامی چور ”بھی کہہ سکتے ہیں۔
یہاں ”جیب چور ” کا ذکر نہ کیا جائے تو یقیناًیہ جیب چوروں کی حق تلفی کہلائے گی جیب چور جسے عرف عام میں ”جیب کترا” بھی کہا جاتا ہے یہ چور بھی کمال کے لوگ ہوتے ہیں یہ اپنے فن میں اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ جب یہ اپنے ”ہاتھ کی صفائی” دکھاتے ہیں تو معزز شہری کو اپنی ”جیب کی صفائی” کا تب پتا چلتا ہے جب وہ اپنا ہاتھ جیب میں ڈالتا ہے اتنے سارے چوروں کی موجودگی میں اب ایک اور نئی قسم کے چور بھی منظر عام پہ آچکے ہیں یہ خود کا مہان کالم نگار سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت یہ کسی اور کو نہیں بلکہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں ان کا کام دوسروں کی تحریروں کو معمولی ردو بدل کے بعد اپنے نام سے پبلش کرانا ہوتا ہے کئی قلم چور تو کسی دوسرے کالم نگار کی تحریر میں ردوبدل بھی کرنا گوارہ نہیں کرتے شاید ان کا خیال ہو کہ کہیں تحریر میں تھوڑی بہت تبدیلی سے اصل کالم نگار ناراض ہی نہ ہو جائے۔
Copy Writing
قلم کاروں کے ساتھ یہ زیادتی اب نہ صرف عام ہو رہی ہے بلکہ آئے روز کا معمول بن چکی ہے ۔۔۔۔ کالم چور کھلے عام ڈاکے ڈالنے پہ فخر بھی کرتے ہیں کبھی کبھا رکاپی پیسٹر بھی غلطی سے کسی کی تحریر کسی دوسرے کالم نگار کے نام سے پیسٹ کر دیتا ہے جب ایک ہی تحریر کے تین دعویدار ہوں اور ان تین میں سے ایک اس تحریر کا اصل حق دار جبکہ دو قلم چور ہی کہلائیں گے ویسے آپس کی بات ہے یہ اعزاز بھی خان صاحب(تحریک انصاف والے نہ سمجھے جائیں ) ہی کو جاتا ہے کہ ان کی تحریر کو دو مختلف قلم چوروں نے اپنے نام کیا ورنہ مختلف کالم نگاروں سمیت خاکسار کی تحریریں چرائی جاتی رہی ہیں لیکن قلم چور ایک ہی ہوتا تھا جبکہ اِن کا یہ ریکارڈ قائم ہواہے کہ اِن کی تحریر کو دو احباب نے اپنے نام کیا۔۔۔۔۔ یہ بات اور لمحہ قلم قبیلہ کے اصل حق داروں کے لئے نہایت تکلیف کا باعث ہوتا ہے جب اس کی تحریر کو چرا کر اپنے نام کر لیا جاتا ہے ہم سب کو اس کا سدباب کرنا ہوگا ورنہ یہ قلم چور اور بھی دیدہ دلیری سے تحریر چرانے کا کام کرتے رہیں گے۔
صحافت کو ملک عزیز میں چوتھا ستون سمجھاجاتا ہے اور صحافت سے وابستہ افراد کا کام معاشرے میں مسائل کو اجاگر کرناہوتا ہے نہ کہ کسی دوسرے صحافی کی محنت کواپنے نام منسوب کر کے مسائل پیدا کرنا ہے صحافت کے اس ‘قلم قبیلہ” میں کچھ ایسے لوگ گھس آئے ہیں جن کا صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے لیکن یہ”کالم چور” دوسروں کی محنت کو اپنے نام کر کے خود کو کالم نگار سمجھ بیٹھے ہیں درحقیقت وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں دوسروں کو نہیں اصل میں خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
یہاں پہ ”ادب کی دنیا” کے نامور ستون اشفاق احمد کی کہی ہوئی بات یاد آ رہی ہے ان کا قول ہے کہ ” دھوکہ ایک ایسی چیز کانام ہے جو اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ کے آتا ہے ”سلیس اردو میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے جو شخص دھوکہ دیتا ہے دھوکہ ایک وقت اسی شخص کی جانب لوٹا آتاہے اس کالم کی وساطت سے صحافیوں اورکالم نگاروں کی تنظیموں سے موئد بانہ گزارش کی جاتی ہے کہ صحافت کے ماتھے پہ کلنک کے ٹیکوں کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے”کالم چور”کو اپنے ”قلم قبیلہ” سے باہر نکالنا ہوگا تاکہ عقیل خاں کی طرح کسی اور کی دل آزاری نہ ہو۔