تحریر: عفت جب بات طے ہے تو پھر بحث کس بات کی بس تم پیسوں کا انتظام کرو تمھارا کام آج ہی ہو جائے گا اور سن لو اس دفعہ پورے پچاس ہزار لوں گی نہ ایک کم نہ ایک ذیادہ ۔چل فون رکھ ۔نذیراں دائی نے فون کاٹ کر پرس میں ڈالا اور جمیلہ کو آواز دی ،اری لے بھی آ گھنٹے سے ایک کپ چائے نہیں بنی ۔بن گئی ہے اماں کیا واویلا مچا دیتی ہو تم بھی لو ،جمیلہ نے بیزاری سے کپ نذیراں کے ہاتھ میں تھما دیا ۔اچھا سن میں جا رہی ہوں تیرا ابا آئے تو اسے کہنا اسپتال آجائے کام ہے مجھے اس سے ۔کہہ دوں گی جمیلہ نے کپ پکڑتے ہوئے کہا ۔نذیراں چادر اوڑھ کے باہر چلدی ۔
آج تم پھر لیٹ آئی ہو مجھے اب تمھاری شکایت لگانی پڑے گی ہیڈ اسٹاف نے موٹے چشمے کے پیچھے سے نذیراں کو گھورا ۔نہ باجی گھر سے جلدی نکلی تھی موئی بس ہی لیٹ آئی اس میں میرا کیا قصور ہے؟ نذیراں نے ملتجی لہجے میں جواب دیا ۔اچھااچھا باتیں نہ بنائو لیبر روم میں تین مریض ہیں چلو آج ڈاکٹر نفیسہ بھی چھٹی پہ ہیں اور ڈاکٹر طاہرہ نائیٹ کر کے گئی ہیں انہوں نے کہا ہے جب تک ایمر جنسی نہ ہو ان کو کال نہ کیا جائے ۔اس خبر نے نذیراں کی باچھیں پھیلا دیں واہ مولا آج تو تو نے بڑا کرم کیا اچھا موقعہ ہے وہ دل ہی دل میں مسکرائی۔ہیڈ اسٹاف روبی پھرکی کی طرح کبھی ایک مریضہ تو کبھی دوسری کی طرف متوجہ ہوتی۔ کبھی تیسری کا حال دریافت کرتی اسی اثناء میں ایک ایمرجنسی آ گئی اس نے سسٹر جبین کو مدد کے لیے بلایا اور دو کیس نذیراں کے سپرد کیے ۔ایک کے ہاں دو جڑواں بچوں کی ولادت ہوئی اور دوسری کی بیٹی افراتفری کا سماں تھا ایسے میں نذیراں ایک بچے کو لے کر کوریڈور میں کھسک گئی اور وہاں کھڑے کریم بخش کو وہ ننھا سا وجود تھما دیا پچھلی گلی سے نکل جا دیوار ٹوٹی ہے اس نے سرگوشی میں کہا اور تیز قدموں سے پلٹ آئی۔
مریضوں کو شفٹ کروا کے بچوں کو ان کے پاس پہنچا دو روبی نے اپنی کنپٹیاں دباتے ہوئے نذیراں کو کہا اور کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں ۔تین گھنٹے کی مصروفیت کے بعد اب وہ فارغ ہوئی تھی،ابھی اس نے سکون کا سانس ہی لیا تھا کہ باہر سے شور وغل کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں ۔کافی سارے لوگ اس کے کمرے میں گھس آئے ۔کیا ہوا ہے؟ کون ہیں آپ لوگ؟ اس نے سخت لہجے میں پوچھا پیچھے نذیراں گھبرائی ہوئی کھڑی تھی ۔کیا بات ہے ؟سسٹر ہمارا دو بچہ ہوا تھا ایک نئیں ہے آپ کی یہ عورت بولتا ایک ہوا ہے جبکہ ہمارا بی بی کہتا دو تھا الٹرا سائونڈ رپورٹ بھی دیکھو ایک پٹھان نے کاغذات آگے بڑھائے۔معاملہ کافی پیچیدہ تھا ،روبی نے ان کو تسلی دی اور انتظار کرنے کو کہا ان کے جانے کے بعد اس نے کڑی نظروں سے نذیراں اور جبیں کو دیکھا ،کیا ڈرامہ ہے یہ؟ میڈم میں تو آپ کے ساتھ تھی جبیں نے منمناتی آواز میں کہا ۔
Doctor
قسم لے لو باجی ایک ہی بچہ تھا وہ بھی کڑی، وہ پٹھان جھوٹ بول رہا ۔نذیراں نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا ۔میری غلطی تھی جو تم پہ چھوڑا اب پتہ نہیں کیا ہو گا؟ روبی نے جھنجھلاتے ہوئے کہا ۔باہر پٹھان نے واویلا مچا کر سب کو اکھٹا کر لیا تھا ۔روبی نے ڈاکٹر نفیسہ کو صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا وہ اور ڈاکٹر عفان آگئے اور پٹھان کو اپنے کمرے میں لے گئے اور پتہ نہیں کس طرح معاملہ ہینڈل کر لیا اور نذیراں کو اس لاپرواہی پہ نوکری سے نکال دیا کیونکہ وہ اپنے ہاسپٹل کی بدنامی نہیں چاہتے تھے۔ نذیراں گھر لوٹی تو کریم بخش کو اپنا منتظر پایا ۔کہاں رہ گئی تھی تو؟ وہ کب سے تیری جان کو رو رہا ہے ۔کریم بخش نے دروازہ کھولتے ہوئے دبے لہجے میں کہا ۔ جمیلہ کو چھوڑ آیا تھا فاطمہ آپا کے ہاں؟نذیراں نے چادر اتارتے ہوئے پوچھا ،ہاں اس نے سر ہلا دیا اور اندر کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔چارپائی پہ کمبل میں لپٹا ننھا سا وجود بھوک کی وجہ سے بے تابی سے اپنا انگوٹھا چوستے چوستے سو گیا تھا ۔کتنا سوہنا بچہ ہے یکلخت عورت کے اندر چھپی مامتا امڈ آئی ،مگر پل بھر میں اس کی جگہ لالچ نے لے لی اور پچاس ہزار کے نوٹ لہرانے لگے ۔
اس نے جلدی سے دودھ فیڈر میں ڈالا اور بچے کے منہ سے لگا دیا ۔بھوکا بچہ چسر چسر بے تابی سے دودھ پینے لگا ۔کب تک آئے گا لینے؟کریم بخش نے سوال کیا اس کے لہجے میں گھبراہٹ نمایاں تھی ۔تو پریشان مت ہو میں پوچھتی ہوں ،نذیراں نے نمبر ملاتے ہوئے کہا ۔ہیلو ہاں تمھارا کام ہو گیا ہے ،ٹھیک ہے میں ایک گھنٹے تک وہاں پہنچ جاوئں گی رقم تیار ہے نا؟ ٹھیک ہے ۔نذیراں نے فون بند کر دیا ۔کیا بنا؟ کریم بخش نے بیتابی سے پوچھا ۔چل اسے بتی چوک تک پہنچانا ہے نذیراں نے دوبارہ چادر اوڑھی اور بچے کو اس میں چھپا کے باہر نکل آئی ،کریم بخش نے جلدی سے تالا لگایا اور بس سٹاپ کی طرف بڑھ گئے۔دو بسیں بدل کر وہ مطلوبہ جگہ پہنچے ۔نذیراں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ اس کا فون بجا اس نے جلدی سے ریسیو کیا اور کچھ دیر سنتی رہی اور پھر اوکے کہہ کر بند کر دیا اور کریم بخش کو آگے چلنے کا اشارہ دیا کمبل میں حرکت ہو رہی تھی بچہ غالبا جاگ گیا تھا اور تقاضا فطرت اسے رونے پہ مجبور کر رہا تھا ۔گیلا پن محسوس کر کے نذیراں نے اس منہ ہی منہ میں گالی دی ،اب وہ سڑک سے گذر کر بازار آگئے تھے اس سے گذر کر پکی گلیاںشروع ہو گئیں تھی ایک بڑے سے کالے گیٹ کے آگے آکے وہ رک گئی ۔بیل بجانے پہ ایک آدمی نے دروازہ کھولا نام بتانے پہ وہ اسے اندر لے آیا ۔
Women
طویل راہداری سے گذر کر وہ ایک وسیع کمرے میں آگئے وہاں صوفے پہ ایک خوش پوش خاتون براجمان تھی اور ساتھ ہی تین اور آدمی تھے جلال نے نذیراں کو خوش آمدید کہا اور خاتون کا تعارف کرایا ،نذیراں یہ بیگم وسیم خان ہیں اور میڈم یہ نذیراں ہماری کارندہ ہے ،پہلے بھی دو بچے اس نے ہی لا کر دئیے تھے ۔ہہم بیگم وسیم نے ہنکارہ بھرا اور ایک آدمی کو اشارہ کیا اس نے بچہ نذیراں سے لے لیا اور رقم کا بیگ اسے تھما دیا ۔گننا چاھو تو گن لو پورے پچاس ہزار ہیں ،بیگم وسیم نے ابرو اچکاتے ہوئے بہت بارعب انداز میں کہا ۔نذیراں کی بانچھیں پھیل گئیں نہ میڈم جی مینوں آپ پہ پورا یقین ہے اس نے بیگ کو دبوچتے ہوئے کہا ۔اوکے تم جا سکتی ہو ۔میڈم نے کمال بے پرواہی سے اس کی طرف سے رخ پھیرا اور بچے کی طرف متوجہ ہوئی وائو سو بیوٹی فل اس نے کمبل ہٹایا ۔نذیراں اور کریم بخش باہر آگئے نذیراں نے بیگ کو سرمایہ ء حیات کی طرح سینے سے لگایا ہوا تھا دونوں خوشی خوشی بس سٹاپ کی طرف بڑھنے لگے ۔
گلی کا موڑ مڑتے ہی اچانک تین ڈھاٹا پوش سامنے آگئے اور گن پوائنٹ پہ ان سے بیگ چھین کر فرار ہوگئے ۔نذیراں کی دہایئوں کی آواز پہ لوگ اکھٹے ہو گئے مگر ڈاکوئوں کا کوئی اتا پتہ نہ تھا لوگوں نے انہیں پولیس میں رپٹ کروانے کا مشورہ دیا اور اپنی اپنی راہ چل پڑے ۔کریم بخش سر پکڑے زمیں پہ بیٹھا تھا اور نذیراں پھسک پھسک کے رو رہی تھی ساتھ ہی اسکے منہ سے ڈاکوئوں کے خلاف مغلظات کا طوفاں نکل رہا تھا ۔ ڈاکٹر عفان نے اخبار کا صفحہ پلٹا ایک چھوٹی سی خبر اور ساتھ کیپشن میں چھپی نذیراں اور اس کے شوہر کی تصویر نے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی وہ جیسے پل بھر میں صورتحال سمجھ گئے ،اخبار لپیٹ کر گاڑی کی چابی اٹھائی انہیں نذیراں کی تلاش میں اس کے گھر تک جانا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی آئیندہ