تحریر: میر افسرا مان، کالمسٹ مقامی حکومتوں کے الیکشن مکمل ہو گئے حکمرانوں کے نہ چاہنے کے باوجود لوکل باڈیز الیکشن مکمل ہوئے ہیں۔ ہم اس سے قبل لکھ چکے ہیں کہ حکمران اپنے اختیارات میں کب کسی کو شامل ہونے دیتے ہیںخاص کر کہ جب فنڈز کا معاملہ بھی ہو۔ روڈ، سوریج،پانی ،صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے مسائل تو مقامی ہیں ان کو صوبائی اورقومی اسمبلیوں کے ارکان کا کیا واسطہ، ان لوگوں کا کام تو قانون سازی، ملکی ایڈمنسٹریشن اور خارجہ پالیسیوں بنانے کے لیے اسمبلیوں میں عوام بھیجتے ہیں اگر ان لوگوں نے اپنے آپ کو گلی کوچوں کے معاملات میں الجا دیا تو یہ نہایت اہم امور کون انجام دے گا مگر کیونکہ ان کاموں میں پیسے کا دخل ہوتا ہے اور پھر پیسے سے کمیشن ملتا ہے اس لیے پاکستان کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے لوکل باڈیز الیکشن میں دیر کرنے اور بہانے کرنے میں کافی وقت ضائع کیا۔
عوام کو ملک کی عدلیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُس نے حکمرانوں کو بار بار تنبیہ کے بعد لوکل باڈیز الیکشن کرنے پر مجبور کیا اور انہوں نے ملک میں لوکل باڈیزجس میں پاکستان کے کنٹونمنٹ بھی شامل ہیں مکمل کر لیے۔ یوسیز کے چیئرمین اور ممبران کے بعد یہ منتخب حضرات خواتین،اقلیت،مزدوروغیرہ کا چنائو کریں گے ۔
پھر اس کے بعد پاکستان کے اضلاع کے چیئر مین کا انتخاب ہوگا اور شہروں میئر منتخب کیے جائیں گے۔اس طرح اب عوام کے مقامی سطح کے مسائل جن میں روڈ،سوریج،پانی،صحت،تعلیم اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے کام شامل ہیں مقامی حکومتیں حل کیا کریں گی۔اس نیک کام کو سب سے پہلے بلوچستان کی حکومت نے کیا اور اپنے لوکل باڈیز الیکشن مکمل کیے ۔اس کے بعد خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اپنے صوبے میں لوکل باڈیز الیکشن مکمل کئے ۔آخر میں پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے تین مراحل میں لوکل باڈییز کے الیکشن مکمل کیے ۔ جس میں پنجاب میں نواز لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی ۔ کراچی میں متحدی قومی موومنٹ کامیاب ہوئی۔تجزیہ کار کہتے ہیں کی ایک ہی وقت میں لوکل باڈیز الیکشن ہوتے تو نتائج ذرا مختلف ہوتے۔
Government
کیونکہ کہ پہلے مراحل میں جیتے والوں کے لیے عوام میں رائے بن گئی تھی اور باقی دو مراحل میں بھی پہلے مرحلے میں جیتنے والوں سیاسی پارٹیوں کو ہی ووٹ ملے۔ اب صوبائی حکومتوں نے ان مقامی حکومتوں کو مناسب اختیارات دینے ہیں تاکہ وہ احسن طریقے سے جن عوام نے انہیں منتخب کیا ہے کی خدمت کر سکیں اگر ہم خیبر پختوخواہ صوبائی حکومت کی بات کریں تو انہوں نے تیس فی صد فنڈز مقامی حکومتوں کو دینے کا کہا ہے جو اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے مجاز ہوں گے۔یہ ایک اچھیکام ہے جو خیبر پختو نخواہ حکومت نے کیا ہے۔شہری علاقوں سے لیکر دہی علاقوں تک اور پھر محلہ تک میں ترقیاتی کاموں کا پروگرام دیا گیا ہے ۔
اب دیکھیں پنجاب حکومت کیا کیا اختیارات مقامی حکومتوںتک منتقل کرتی ہے اور کتنے فی صد فنڈز ان کو دیتی ہے تاکہ جو وعدے انہوں نے الیکشن مہم کے دوران عوام سے کیے ہیں ان کو احسن طریقے سے پورا کر سکیں۔سندھ کی صوبائی حکومت نے تو دو تین محکموں کے علاوہ تمام محکمے اپنی کنٹرول میں لیے ہوئے ہیں یہ مقامی حکومت کے ساتھ ظلم ہے اسے فوراً ختم ہونا چاہیے ۔کراچی کے چار اضلاح میں مکمل جیت اور باقی دو اضلاح میں جزوی جیت کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں متحدہ قومی موومنٹ کے لوگوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اختیارات نیچے کی سطح پر منتقل ہونے چاہیے۔
JI, PTI
اس میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد نے بھی ساتھ دینے کی یقین داہانی کرائی ہے یہ عوام کی خدمت کرنے میں کے معالمے میں بہترین یک جہتی ہے جسے آگے بھی جاری رہنا چاہیے ۔جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو اس کے میئر(مرحوم) جناب عبدالستار افغانی صاحب نے اپنے دور میں تو اختیارات کے حصول کے لیے بھر پور احتجاج کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی سڑکیں تو کراچی کی بلدیہ بنائے اور اس پر چلیں پورے صوبے کی ٹرانسپورٹ اور پھر ویکلز ٹیکس بھی صوبائی حکومت لے جائے تو یہ کہاں کا انصاف ہے۔ احتجاج کی کال کے بعد کراچی میں دفعہ١٤٤ لگا دی گئی تھی۔
ویکلز ٹیکسز کی بلدیہ کو منتقلی کے لیے بلدیہ کے آفس سے صوبائی حکومت تک دو دو کی ٹولیوں میں اپنے گلوںمیں ممبرز کا ٹیک لگائے بلدیہ کے ممبران نے تاریخی مارچ کیا تھا۔ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے مناسب فاصلے رکھتے ہوئے دو دو کی ٹولیوں میں سندھ کی صوبائی حکومت کی بلڈنگ تک پہنچ کر اپنے مطالبات پیش کرنے کی پاداش میں اس پر ڈکٹیٹر ضیاء کی آشیر آباد پر سندھ کی صوبائی حکومت جس کے اس وقت وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ صاحب ،جو خود بھی قانون دان تھے ،نے بلدیہ کے ممبران اور میئر عبدالستار افغانی پر صوبائی پولیس کے ذریعے بدترین تشد کیا تھا اور کراچی کے میئر سمیت سو سے زائد بلدیہ کے ممبران کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ اب دیکھتے ہیں کراچی میں لوکل باڈی انتخابات جیتنے والے متحدہ کے ممبران کتنی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں یا اپنے پہلے ریکارڈ کے مطابق سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ آنے جانے کا کھیل ہی کھیلتے رہنے والی پالیسی پر عمل کرتے ہیں ۔ کراچی کے عوام کے پینے کے لیے پانی نہیں ہے۔ کئی علاقوں میں پانی کے نلوں میں برسوں سے پانی نہیں
Karachi
آ رہا اور کراچی کے عوام ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پروقت گزار رہے ہیں ہیں راقم خود کراچی کی ایک کچی بستی اختر کالونی میں اسی گز کے دو فلیٹوں میں کرایہ پر اپنی فیملی کے ساتھ رہا ہے یہاں اکثر گلیوں میں نلوں میں پینے کا پانی نہیں آتا برسوں سے ہر ماہ بارہ ہزار روپپے ماہوار کا پانی ٹینکروں سے ڈلوا رہا ہے ۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظاہرہ دیکھنا ہو تو صبح اور شام کو دیکھا جا سکتا ہے کی کراچی کے عوام ویگنوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہیں۔سڑکوں کا بُرا حال ہے ہرطرف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ سوریج کا پانی گلیوں اور سڑکوں پر گھڑا رہتا ہے۔ گلیوں میں قائم کچرا کنڈیوں بھری پڑی رہتی ہیں۔ لوگ نے اپنی مدد آپ کے طور پر کچرا اُٹھانے کا انتظام کرنے پر مجبور ہیں۔ گورنمنٹ کے اسکوںمیں تعلیم کا کوئی پرسان حال نہیں پرائیویٹ اسکولوں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔
کراچی پاکستان کو ستر فی صد ریونیو کما کر دیتا ہے مگر شہر کے مسائل حل کرنے کی طرف کوئی بھی توجہ نہیں دیتا کہنے کو تو کراچی منی پاکستان ہے تو پھر مرکزی حکومت صرف لاہور اور راولپنڈی میں ترقیاتی کام کر رہی ہے جو ایک حد تک توصحیح ہے مگراُسے کراچی کے عوام کی طرف بھی توجہ کرنے چاہیے خاص کر کراچی کے پینے کے پانی کو ہنگامی بنیاد پر حل کرنے میں سندھ کی صوبائی اور لوکل حکومت کو خصوصی فنڈ مہیا کرنے چاہیے تا کہ کراچی کے عوام کی محرومی کا تدراک کیا جا سکے۔ لوکل حکومت سے بھی عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ ہنگامی بنیادوں پر کراچی کے عوام کے مسائل حل کرے خاص کر کراچی کی کچی آبادیوں کی طرف خصوصی توجہ دے ماضی میں ان کو نظر انداز کیا گیا تھا۔