تحریر: اسماء واوجد روزوں کا اہتمام کیجیئے اور غریب و نادار لوگوں کو رمضان کے اس با برکت مہینے میں مدد فراہم کیجیئے ۔ ایک مشہور و نامور اینکر پرسن نجی چینل پر افطاری کے فورا بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے اجا زت لے رہا تھااور انعامات حاضرین کو پیش کیئے جا رہے تھے۔ خوبصورت سٹیج اور مارکیٹنگ کے لئے ہونے والے خرچ اگر ذہن میں آئیں تو غریبوں کی رمضان میں مدد والے فقرے کی فورا نفی سامنے آجاتی ہے یہ صرف اس سال نہیں بلکہ پچھلے سات سالوں سے ہمارے معاشرے کی بے شمار کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہے جو کہ دن بہ دن ہمارے ہی بڑھاوے سے اور بڑھتی جا رہی ہے۔
رمضان ٹرانسمشن ٹرینڈ میں ایک ایسے Formate کی پیروی کی جا تی ہے جو میڈیا کے اصولوں اور طریقوں کی خلاف ورزی ہے ۔ ایک مذہبی امر کو اس طرح بڑھانے کے لئے استعمال کرنا اور ایک بڑی رقم کو اس میں Invest کرنا بھی قباحت ہے۔ مختلف مذہبی سکالرز رمضان ٹرانسمشن میں آکر ایسے فتوے اور بیان جاری کرتے ہیں جو کہ نا صرف اقلیتوں کے مذہبی عقیدوں پر ضرب ہوتے ہیں بلکہ ہمارے اپنے مذہبی شدت پسندوں میں اقلیتوں کے خلاف نہ صرف نفرت کو بڑھاوا دیتے ہیں بلکہ انہیں غیر اخلاقی امور کی طرف بھی دھکیلتے ہیں قرآن، حدیث اور سنت کو اپنے انداز میں پیش کر کے غیر تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے جذبات کو ہوا دی جاتی ہے جو کہ معاشرے کے لئے بڑے پیمانے پر نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ اسلام بہت پیارا اور امن کا پاسدار دین ہے اس کو اس کی تعلیمات کو عمو ما اپنے پروگرامز میں غلط انداز سے پیش کیا جاتا ہے۔
Pakistan
ہماری آدھے سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہے اور دینی و دنیاوی تعلیم کے صحیح ذرائع طریقوں اور تعلیمات سے محروم ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے سکا لرز کی باتوں پر بغیر تحقیق اور سند کے پختہ یقین کر لیتے ہیں جو کہ فساد اور فتنہ کی بنیاد ہے۔ تھر کا قحط پاکستان نہیں دنیا کی تاریخ میں ایک بہت بڑا قحط تصور کیا جاتا ہے سال بھر وہاں بھوک اور افلاس کی بنا پر اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ اور ہم بے حسی کا مجسمہ بنے اموات کے اس بے روک سلسلے کے تماشائی ہیں۔ جو گفتگو کے بلند و بانگ دعوئوں کے ساتھ ساتھ اپنےcareer کو چمکانے کے لئے استعمال کر رہے ہیںسوشل میڈیا پر پوسٹس میں بے تحاشا شیئر کر رہے ہیں پر افسوس صد افسوس صرف لفظی کلامی اس سارے عمل پر تشویش اور مدد کا اظہار کرتے ہیں۔
سوشل، پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا پر جتنا اس قحط کے لئے کچھ کرنے اور کرانے والے شور مچاتے ہیں اگر وہ اپنے معمول کے اخراجات کا 2% بھی وقف کر دیں تو اس سے نپٹا جا سکتا ہے ۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں پر تو بحث و گفتگو اور الزام تراشی کو ترجیح دی جاتی ہے پر اس کے حل کے لئے کوشش نہیں کی جاتی ۔۔۔۔۔۔ چونکہ قحط سندھ کے علاقے میں ہے اس لئے باقی تینوں صوبوں کی جماعتیں بشمول حکومت سندھ حکومت کو دیئے جانے والے فنڈز اور سندھ حکومت کی نااہلی اور کوتاہیوں کو ہا ئی لائیٹ تو کرتے ہیں پر عملی طور پر کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں جس کے ذریعے وہا ں کے حالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ “اچھا پہنو اچھا دکھو” یہ ٹیگ لائن بھی اسلام کے صفائی کے حکم کو اپنے حساب سے موڑ کر پیش کی جانے والی مغربی لوازمات میں سے ایک ہے ۔ جس میں گھریلوں خواتین سمیت ہر عمر و جنس کے افراد بلخصوص نوجوان طبقہ مشغول ہے جس کو ماڈرن زبان میں Brand Consiousness کا نام دیا جاتا ہے اور بڑے نخرے سے اپنے سماجی طبقے میں تشہیر بھی کی جاتی ہے۔
human rights
اس سمیت تحریر شدہ باقی تمام عناصر کو غور سے دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ اس سے بے حس معاشر ے کے رکن اور جانے انجانے اس بے حسی کو اگلی نسل میں بھی منتقل کر رہے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ دین سے دوری اور حقوق العباد سے بے نیازی ہے۔ یہ عناصر اور کئی دوسرے عناصر ہیں جو کہ ہمیں انسانیت کے فرائض نبھانے سے دور کئے ہوئے ہیں ۔ اسلام اور دینی تعلیم کے نام پر بے پناہ لوگ اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں اور حقیقتا ایسے لوگوں کی پشت پناہی ہم ہی کرنے والے ہیں خدا راہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور خود سے اسلامی تعلیمات اور خصوصا قرآن کا مطالعہ کریں تا کہ ایمان کے مضبوط جز حقوق العباد سے روشناس ہوں اور اللہ کے بنائے ہوئے احکامات کو سمجھیں اور اپنایئں ۔ اللہ مجھ سمیت تمام مسلمانوں کو ایمان کے تقاضوںکی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔