سچ لکھنا اور بولنا کبھی آسان نہیں رہا، دور حاضر میں تو سچ لکھنے اور بولنے والے محدب عدسہ لگا کر بھی دیکھیں تو بھی نظر نہیں آتے،جو اِکا دُکا دکھائی دے بھی جائیں تو مصلحت کے تقاضوں میں چھپے ہوتے ہیں اور صاف کھل کر واشگاف الفاظ میں حق کا عَلم بلند کرنے سے کتراتے ہیں ،کیونکہ اس کی وجہ سے ان کے اَلم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
موجودہ پرفتن دور میں جس نے حق کی صدا کو بلند کرنے کی سعی کی وہ غدار ٹھہرا ،کیونکہ اس دیس میں سچ بولنا ناممکنات میں سے ہوتا جا رہا ہے ،حق کا ساتھ دینے والے گِنے چُنے رہ گئے ہیں صرف چند ایک ہی ،کیونکہ یہ بازی خون کی بازی ہے اور یہ گیم ہر بندے کے بس کی بات نہیں ،اس کا کھلاڑی وہی ہوگا ،جو حالات کے خونی منظرمیں کودنے کے لیے دل گردہ رکھتا ہو گا کیونکہ غداری کا لیبل سینے پر چپکانا اور اس بھیانک ٹائیٹل کے ساتھ زندہ رہنا سہل نہیں ہے۔
میرے دیس میں جہاں سچ بولنا جرم کے زمرے میں آتا ہے ،وہی اس اسلامی ملک میں مذہب کے نام پر کچھ لوگوں نے ایسی دھما چوکڑی مچا رکھی ہے کہ بے اختیار مولانا یاد آ جاتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد انڈیا میں مسلمانوں پر زمین تنگ ہو جائے گی جبکہ پاکستان میں اسلام پر نت نئے تجربے ہونگے،ان کی مندرجہ دونوں باتیں اور پیشن گوئیاں درست ثابت ہورہی ہیں مگر یہاں ہم اس پاک ذات کاشکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں ایک آزاد اور خودمختار ریاست عطا کی ،جس میں ہم آزادانہ طور پر سانس لے رہے ہیں اور اسلام پر تجربے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
پہلے یہ تجربے صرف دنیاوی مقصد کے لیے تھے ،جسے کسی چیز کو اسلامی لبادے میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا رہا اور دنیاوی فوائد حاصل کیے جاتے رہے ،مذہب کو برانڈ بنانے کے بعد اسے سیاست میں گھسیڑ دیا گیا،سیاست اور مذہب لازم و ملزوم ہیں بقول اقبال #
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مگر یہاں دین کو ایسے انداز میں سیاست میں گھسیڑ دیا گیا کہ الامان والحفیظ ۔ مذہبی چوغہ اوڑھو اور اپنے سیاسی مخالفوں کو یہودی ایجنٹ بنادو،مذہب کا لبادہ اوڑھ کر کسی کو کافر ،کسی کومشرک بنادو،مذہب کے نام پر سیاسی دوکان پر ایسا چورن بیچو کہ کوئی تم سے اختلاف رائے نہ کر سکے ۔
سیاست کو مذہبی لبادہ پہنایا اور پھر اس پہ جنونیت کی چادر ڈال دی گئی ،جو مذہب اعتدال کا مذہب تھا ،اسے انتہا پسندی کا بنا دیا گیا،جو ہمیں مل جل کر رہنے کی تلقین کرتا ، مذہبی سیاسی جنونیوں نے طبقات میں بانٹ دیا ،جو ہمیں اخلاق کا درس دیا کرتا ،آج اس مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار اپنے مخالفوں پر گالیوں کی بوچھاڑ اور آوازیں کس رہے ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے لگے۔
مذہب کے بیوپاری اس نہج پر پہنچ چکے جہاں انکل سام انسانیت کے نام نہاد علمداری کی معراج پر پہنچا ،جسے چاہے وہ مار دیتا اور پوچھنے پر معلوم ہوتا کہ جو مرا ہے وہ دہشت گرد تھا ،جس پہ چاہے وہ حملہ کر دیتا اور وضاحت یہ ہوتی کہ یہاں کچھ دیر قبل دہشت گردوں کے قبیلوں کا سرخیل موجود تھا ،پوچھا جاتا کہ وہ تو بھاگ گیا جو مر گئے ان کا قصور کیا ؟جواب ملتا دہشت گردوں کے قلع قمع کے لئے قربانیاں ضروری ہوتی ہیں ۔
عجیب ریت ہے ،کیا ماحول بن چکا ہے،اپنی منطقیں ہیں ،اور اپنی سوچ سے سچ بولنے والے کو غدار کہہ کر ملک بدر کرڈالو،یا مذہبی لبادہ اوڑھ کر کافر بنا ڈالو،جی میں آئے تو کسی کو دہشت گرد کہہ کر مار ڈالو۔
سنو! مرا جہاں بسیرا ہے ، اداسی کا ڈیرہ ہے جس نگر رہتا ہوں وہاں سوچ پہ پہرہ ہے سنو! کہتے ہیں لبوں کو وا نہیں کرنا سہہ کر ظلم بھی آہ نہیں کرنا جب سچ بات کہو گے تم حق بات کہو گے تو غدار کہا جائے گا جھوٹا و مکار کہا جائے گا یارو! خوفناک نظارا ہے ہر کوئی درد کا مارا ہے کچھ نہ پوچھئے صاحب انسانیت کے علمداروں سے جھوٹے اور عیاروں سے تجھے یہ مار ڈالیں گے دہشتگرد کہہ کر مار ڈالیں گے سنو! درد بھری داستان ہے ہر بندہ پریشان ہے بس لبوں کو نہ کھولئے انکے آگے کچھ نہ بولئے یہ مذہب کے ٹھیکدار ہیں نہایت ذہنی بیمار ہیں کافر کہہ کر مار دیتے ہیں گستاخ بنا کر مار دیتے ہیں