سائنسدانوں نے ایک نایاب اور مکمل ڈائناسور کے فوسل کے ’اندر دیکھنے‘ کے لیے طاقتور ایکسریز کا استعمال کیا ہے۔ یہ ڈھانچہ چھوٹے قد کے سبزی خور ڈائناسور کا ہے جس کی نسل 20 کروڑ سال پہلے زمین پر موجود تھی، جو ابتدائی جوراسک دور تھا۔
اگرچہ یہ نسل اس وقت یہ نسل بہت زیادہ پھیلی ہوئی تھی تاہم سائنسدانوں کو زیادہ تر نامکمل فوسلز پر انحصار کرنا پڑا ہے۔ حالیہ تجزیہ فرانس کی شہر گرینوبل میں ای ایس آر ایف میں کیا گیا جس سے ظاہر ہوا کہ یہ جاندار ایک چھوٹا بچہ تھا۔
کھوپڑی کو سکین کرنے سے سائنسدان اس جانور کے دماغ کو تھری ڈی شکل میں بنا سکتے ہیں یہ ڈھانچہ بہت چھوٹا اور نازک ہے اور اس کے گرد سخت پتھر ہیں جس سے اس کا تجزیہ کرنے میں مشکل کا سامنا بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پتھر جس پر یہ فوسل محفوظ ہے اس پر دیگر نمکیات بھی موجود ہیں جس سے اس کا سی ٹی سکین کرنا ممکن نہیں تھا۔
یہ ڈھانچہ جنوبی افریقہ کےمغربی صوبے سے ایک ندی کی تہہ سے ماہر رکازیات (حجریات) بلی ڈی کلرک نے دریافت کیا تھا۔ جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کی یونیوورسٹی آف وٹواٹرزرینڈ کے پروفیسر جونا چوئنیئر کا کہنا ہے کہ ’سبزی خور ڈائناسوروں کے بارے میں ابھی بھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔‘
یہ ڈھانچہ جنوبی افریقہ کےمغربی صوبے سے ایک ندی کی تہہ سے ماہر رکازیات بلی ڈی کلرک نے دریافت کیا تھا ’ہمیں اس طرح کے مزید نمونے حاصل کرنے اور سنچروٹرون جیسی نئی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے تاکہ اس خلا کو ختم کیا جاسکے۔‘
پروفیسر چوئنیئر اور ای ایس آرف ایف (یورپین سنچروٹرون( کے ڈاکٹر ونسنٹ فرنینڈیز نے اس نمونے کو طاقتور ایکس ریز کے ساتھ سکین کیا تاکہ ہیٹیروڈونٹوسارس ٹکی نامی اس نسل کے کھانے پینے، حرکت کرنے اور سانس لینے کے عمل کے بارے میں جانا جاسکے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ جانور پودوں کو اکھاڑنے کے لیے اپنے پچھلے دانت استعمال کرتا تھا مٹھی کے سائز جتنی کھوپڑی کو سکین کرنے سے سائنسدان اس جانور کے دماغ کو تھری ڈی شکل میں بنا سکتے ہیں جس سے اس کے انداز زندگی، اس کے سونگھنے کی صلاحیت اور اس کی عادات کے بارے میں حقائق سامنے آسکتے ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ جانور پودوں کو اکھاڑنے کے لیے اپنے پچھلے دانت استعمال کرتا تھا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب وہ ڈائناسارز کی حیاتیات اور ان رویوں کے بارے میں مزید جاننے کے حوالے سے تجربات کا آغاز کر سکتے ہیں۔