بیجنگ (اصل میڈیا ڈیسک) چینی حکومت کی سرکاری دستاویزات کے افشاء کے ایک بڑے واقعے میں سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے خلاف سکیورٹی کریک ڈاؤن کی نئی حیران کن تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ان دستاویزات میں ’بالکل کوئی رحم نہ کھانے‘ کا حکم دیا گیا ہے۔
چینی دارالحکومت بیجنگ سے اتوار 17 نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ چین میں ملکی حکومت کی سرکاری دستاویزات کے افشاء کا یہ اتنا بڑا واقعہ ہے، جس کی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔ ان دستاویزات کے مطابق ملکی صدر شی جن پنگ نے ریاستی اہلکاروں کو یہ حکم دیا کہ وہ صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں پر سکیورٹی کریک ڈاؤن کے دوران علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف ‘قطعاﹰ کوئی رحم نہ کھائیں‘۔
انسانی حقوق کی کئی تنظیموں اور بہت سے غیر ملکی ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے ملک کے انتہائی مغرب میں واقع خطے سنکیانگ میں ایغور نسل کے باشندوں اور دیگر مسلم اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ایک ملین سے زائد شہریوں کو ایسے حراستی مراکز میں بند کر رکھا ہے، جنہیں سرکاری طور پر ‘تربیتی مراکز‘ کہا جاتا ہے۔
یہ سرکاری دستاویزات مجموعی طور پر 403 صفحات پر مشتمل ہیں، جو نیو یارک ٹائمز کے ہاتھ لگ گئیں۔ ان کاغذات سے پہلی مرتبہ یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی اس بہت خفیہ رکھے گئے لیکن بہت متنازعہ کریک ڈاؤن کے بارے میں اصل سوچ کیا ہے۔
بیجنگ حکومت کے سنکیانگ میں انہی اقدامات پر بین الاقوامی سطح پر، خاص طور پر امریکا کی طرف سے بھی شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
ان دستاویزات سے یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ اس کریک ڈاؤن کے دوران حکمران کمیونسٹ پارٹی میں داخلی سطح پر اختلاف رائے بھی موجود تھا۔ نیو یارک ٹائمز نے موجودہ ویک اینڈ پر اس بارے میں شائع کردہ اپنی ایک جامع رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان سرکاری دستاویزات میں چینی صدر کی وہ تقاریر بھی شامل ہیں، جن کی تفصیلات آج تک کہیں شائع نہیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ ان میں وہ سرکاری احکامات اور نگرانی سے متعلق کئی دیگر رپورٹیں بھی شامل ہیں، جن میں ایغور مسلم اقلیتی آبادی کو کنٹرول کرنے کی بات کی گئی ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق یہ خفیہ سرکاری دستاویزات چینی سیاسی انتظامیہ کے ایک ایسے رکن کی وجہ سے منظر عام پر آئی ہیں، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، لیکن جس نے اپنے اس اقدام کے ساتھ یہ امید ظاہر کی ہے کہ شاید اس افشاء کے بعد صدر شی جن پنگ سمیت چینی سیاسی قیادت کو ‘عوامی سطح پر وسیع تر گرفتاریوں کے اس سلسلے کے لیے جواب دہ ہونے سے فرار‘ کا راستہ نہ مل سکے۔
چینی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی آبادی کی ‘ذہنی اور سماجی تربیت‘ کے نام پر قائم کیے جانے والے حراستی مراکز کا سلسلہ 2016ء میں اس وقت بہت زیادہ پھیل گیا تھا، جب بیجنگ حکومت نے سنکیانگ میں چَین چوآن گُو نامی اہلکار کو کمیونسٹ پارٹی کا نیا علاقائی سربراہ مقرر کیا تھا۔
ان دستاویزات کے مطابق سنکیانگ اور وہاں کی مسلم آبادی سے متعلق بیجنگ حکومت کی پالیسی پر مقامی سطح پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی مزاحمت نہیں پائی جاتی کیونکہ اس حکمت عملی سے اختلاف کرنے والے علاقائی حکام کو بھی خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے بیجنگ کی ہاں میں ہاں نہ ملائی، تو خود انہیں بھی اپنے خلاف کارروائی اور سزاؤں تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔