سال 2018ء اختتام پذیر ہو رہا ہے۔اس سال پاکستان کی سیاست میں بہت زیادہ تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں اور سب سے اہم بات یہ کہ عوام پر حکمرانی کرنے والوں کا پہلی بار احتساب ہو رہا ہے۔سال 2018 کسی کے لیے خوشی لے کرآیا تو کسی کو غم دیا۔ پاکستان کے تین بڑے سیاسی رہنماؤں نواز شریف آصف زرداری اور عمران خان پر بھی اس سال نے گہرے اثرات مرتب کیے۔اس سال عمران خان وزارت عظمیٰ کی کرسی تک اور نواز شریف جیل پہنچ گئے جبکہ سابق صدر آصف زرداری پربھی کرپشن کیسز میں گرفتاری کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے۔
سب سے پہلے بات کی جائے قائد مسلم لیگ ن کی تو میاں صاحب اقتدار کے ایوان سے تو 2017 میں ہی نکل گئے تھے مگر 2018 نے انہیں زندان تک بھی پہنچا دیا۔پہلے6جولائی کواحتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے میں 10سال قید ہوئی تو 11ستمبر کو انہیں کینسر کے باعث انتقال کر جانے والی اپنی اہلیہ کلثوم نواز سے جدائی کا گہرا صدمہ سہنا پڑا۔تیرہ جولائی سے 19ستمبر تک اڈیالہ جیل میں قید رہنے والے نواز شریف کی سزا اسلام آباد ہائی کورٹ نے میاں صاحب کی سزا معطل کردی لیکن یہ آزادی دیرپا ثابت نہ ہوئی۔24 دسمبر کو احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں ایک بار پھر 7سال کے لیے قید کی سزا سنا دی۔
اس کے علاوہ ڈھائی کروڑ جرمانے اور جائیداد ضبطگی کا حکم بھی سنایا گیا۔یعنی نواز شریف کے لیے وہی حساب رہا کہ ”شب وروز بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے، کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے”۔سابق صدر آصف زرداری کے لیے بھی یہ سال اچھی خبریں نہ لایا۔ جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس میں اْن کے قریبی ساتھی انور مجید اور حسین لوائی گرفتار ہوئے۔ 24دسمبر کو اسی معاملے پر جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں بھی طلب کرلیا۔گرفتاری کی تلوارآصف زرداری کے سرپرمسلسل لٹک رہی ہے۔
عمران خان کے لیے تو 2018 وہ سال ثابت ہوا جس کا انتظار وہ 22 برسوں سے کررہے تھے۔وزارت عظمیٰ کے حصول کا ان کا دیرینہ خواب اسی سال پورا ہوا۔وزیراعظم بننے سے قبل بشریٰ بی بی سے شادی عمران خان کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔اگر سال 2018ء کی شریف خاندان کے حوالے سے بات کریں تو اس سال شریف خاندان کو بہت بری خبروں کا سامنا کرنا پڑا۔جہاں ایک طرف شریف خاندان کو اپنے خلاف مقدمات کا سامنا تھا وہیں انہیں بیگم کلثوم نواز کی جدائی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔مصائب کا شکار فیملی 2018کے اختتام پر بھی عدالتوں کے چکر کاٹتے سزاؤں کے بعد جیل یاتراؤں پر چلی گئی۔نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں پہلے سے ہی جیل میں ہیں جب کہ اب نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنا دی گئی ہے جس کے بعد دونوں بھائی 19 سال بعد ایک مرتبہ پھر جیل میں ایک چھت تلے ساتھ ہوں گے۔
جب کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزشین لیڈر اور شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز بھی مشکل میں ہیں۔شریف خاندان کے علاوہ ن لیگ کے کئی رہنما مشکل میں گھرے ہوئے ہیں۔اپنے دورِ حکومت میں کی جانے والی کرپشن کا حساب اب سب کو دینا پڑ رہا ہے۔ جب کہ مریم نواز بھی جیل سے رہائی کے بعد خاموش رہی ہیں تاہم گذشتہ روز انہوں نے اپنے والد کے حق میں آواز ضرور اٹھائی تھی۔مریم نواز کی خاموشی سے لگ رہا تھا کہ شاید وہ کسی ڈیل کے تحت خاموش ہیں اور یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ مریم نواز نے سیاست کے میدان سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مریم نواز بہت کم عرصے میں عوام میں مقبول ہو گئی تھیں۔اگر شریف خاندان کو اپنے خلاف ان کیسز کا سامنا نہ کرنا پڑ رہا ہوتا تو اب حالات بلکل مختلف ہوتے۔اس تمام صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جماعت جس کے سربراہ اس ملک کے تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔جو اس ملک میں کئی سالوں سے کروڑوں ووٹ لیتے آ رہے ہیں ان کا مستقبل کیا ہو گا۔شریف خاندان کو اپنے خلاف احتساب کی جنگ میں مزید کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یہ تو آنے والا سال ہی بتائے گا تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ سال 2018 ء شریف خاندان کے لیے مصیبتوں بھرا اور مشکلات سے بھرپور سال رہا ہے۔
سال 2018ء میں سیاسی گہما گمی عروج پر رہی، جس کے باعث اپوزیشن نے حکومت کا ابتدائی تین ماہ میں قانون سازی میں ساتھ دینے کی بجائے اسمبلیوں میں کرپشن کیسز کو ہی زیر بحث بنائے رکھا۔ جس کی وجہ سے حکومت عام مسائل کی طرف مکمل توجہ نہ دے سکی تاہم آنے والے دنوں میں حکومت کے ویڑن میں بہتری اور درست اقدامات دیکھے جارہے ہیں۔ وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوتے ہی وزیراعظم عمران خان نے خطاب میں بچوں کے مسائل اور نشوونما کو ترجیحی بنیادوں پر حل کا اظہار کیا۔ سال 2018 میں پاکستانی بچوں کے مسائل اس طریقے سے کم نہ ہو سکے۔ مگر وزیر اعظم نے اپنی ہر تقریر میں بچوں کی گروتھ پر بات کی، بچوں میں خوارک کی کمی اور نشوو نماکو زیر موضوع بنایا رکھا۔ تاہم صوبائی حکومتیں اس حوالے سے جامع قانون سازی نہ کرسکی بچوں کیخلاف جنسی تشدد کے واقعات رونما بھی ہوتے رہے۔
چائلڈ میرج کی روک تھام کیلئے موثر قانون سازی نہ ہوسکی،ملک کے 44فیصد بچے سکولوں سے باہر رہے چائلڈ لیبرایک کروڑ سے زائدبچوں کے بچپن ، معصومیت اورہنسی کو نگل رہی ہے ، صنعتی مراکز پر معاشی مجبوریوں کا خراج اداکرنے پر مجبور رہے یونیسیف نے نومولود بچوں کی اموات کے حوالے سے پاکستان کو خطرناک ترین ملک قرار دے دیا ، 2018 میںہر ایک ہزاربچوں میں سے 46 نوزائیدہ بچے اپنی پیدائش کا پہلا مہینہ ختم ہونے سے قبل ہی دم تورٹے رہے جبکہ 6 ماہ سے 23 ماہ تک کے 85 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار رہے۔سال 2018 میں3526 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے اور روزانہ 12 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ قصور کی معصوم بچی زینب کے مجرم کو سزا بھی مل گئی، وفاقی سطح پر قومی کمیشن برائے حقوق اطفال ایکٹ 2017 کے تحت 2018 میں بھی کمیشن کا قیام عمل میں نہ آسکاتاہم جو وینائل جسٹس سسٹم بل قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا۔سال 2018 یہ سال کسی کے لیے بہت اچھا رہا اور کسی کے لیے بہت برا رہا۔ ویسے تو ہر سال کسی کے لیے بہت زیادہ اچھا اور کسی کے لیے بہت زیادہ برا ثابت ہوتا ہے مگر 2018 معیشت کے لیے کیسا رہا یہ بڑی بات ہے کیونکہ کسی ملک کی ترقی کا دارومدار اس کی معیشت پر ہوتا ہے۔
اگر پاکستانی معیشت کی بات کریں تو اس کے لیے یہ سال ملا جلا رہا تو سال 2018 کے اختتام میں ایک نظر ڈالتے ہیں 2018 پاکستانی معیشت کے لیے کیسا رہا؟جون 18 20 میں ختم ہونے والے مالی سال جولائی 17 تا جون 18 میں شرح نمو ایک دھائی کی بلند ترین سطح پر رہی۔ جبکہ جولائی 2018 سے دسمبر کی کارکردگی نے پریشان تھی۔30 نومبر امریکی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا۔ انٹربینک تبادلہ مارکیٹ میں ڈالر 139 کی بلند ترین نفسیاتی حد تک پہنچ گیا۔22 نومبر کو سونیکی قیمت گزشتہ 7سال کی بلندترین سطح پر پہنچ گئی ایک تولہ سونا400روپیاضافے سے62900 روپیکاہوگیا اور سال کے اخر میں سونا 68 ہزار روپے فی تولہ ہو گیا۔
رواں برس سعودی نے ہر ماہ 1 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرواتے ہوئے سال کے اختتام پر2 ارب ڈالر بھیجے۔ تاہم یہ رقم تین فیصد شرح سود پر جمع کراوئی گئی ہے۔ سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر دینے کے ساتھ خام تیل کی خریداری کے ادائیگی میں تاخیر کی سہولت بھی دی ہے۔روپے کی قوت تبادلہ متاثر ہوئی ہے کیوں کہ مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ ذخائر جو سال کے آغاز پر 14 ارب ڈالر تھے وہ کم ہوکر 8ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔نومبر 2018 تک ملک کی درآمدات کے مقابلے میں برآمدات زیادہ رہیں۔
نومبر 2018 تک دنیا بھر سے 52 ارب ڈالر کی اشیا خریدیں گئیں۔ پاکستان کی ایکسپورٹس یا برآمدات محض 23 ارب ڈالر رہیں اور اس میں بیرون ملک پاکستانیوں کی بینک کے ذریعے بھیجے 19 ارب ڈالر ملا نے کے بعد بھی قریب پونے 17 ارب ڈالر کی کمی رہی۔2018 میں شرح سود میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا جو 4.25 فیصد بڑھ کر 10 فیصد ہوگیا۔پیٹرول کی قیمت کے ساتھ بجلی اور گیس کے نرخ میں بھی اضافہ ہوا۔ حکومت سال کے دس مہینوں میں 3710 ارب روپے قرض لے چکی ہے۔ جبکہ 2018 کے اختتام پر صور ت حال کچھ اس طرح سے ہے معاشی سرگرمیوں کے سمٹ جانے کی وجہ سے روزگار کے مواقع کم ہوئے اور حکومت کی آمدنی بھی متاثر ہوئی ہے۔مگر پھر بھی امید پر دنیا حکومت کا کہنا ہے کہ جون 2019 تک کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔