ہاناؤ المیہ، ایک سال مکمل ہونے پر بھی رنج و غم برقرار

 Hanau Shootings

Hanau Shootings

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن شہر ہاناؤ میں ایک سال قبل دو مقامات پر جمع لوگوں پر ایک شخص نے اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کے رشتے دار اور لواحقین اب بھی غمزدہ ہیں۔

انیس فروری سن 2020 کو فرینکفرٹ کے قریب واقع شہر ہاناؤ میں تینتالیس سالہ ٹوبیس آر نے دو شیشہ یا حقہ باروں پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے نو افراد کو ہلاک اور پانچ کو زخمی کر دیا تھا۔ اس فائرنگ سے قبل اس نے اپنی ایک ویڈیو کے ذریعے نسل پرستانہ اور سازشی نظریات کا بھی پرچار کیا تھا۔

ان شیشیہ باروں میں ہلاک ہونے والوں میں تین ترک شہریوں کے علاوہ بقیہ پانچ افراد کا تعلق شمالی افریقی ممالک سے تھا۔

بیتین التگین ایک سال بعد بھی اپنے بھائی کا انتظار کر رہا ہے اور اس مقام سے بھی بخوبی آگاہ ہے جہاں اس کے بھائی اورخان التگین کو گولیاں لگی تھیں۔ بیتین التگین کا کہنا ہے کہ وہ قاتل کے فائرنگ کرنے کے راستے کو بھی ذہن میں لا سکتا ہے کہ کہاں اس نے اپنی کار روکی اور باہر نکلنے کے بعد آگے بڑھ کر فائرنگ شروع کر دی۔

اس ایک مقام پر پانچ افراد کی موت ہوئی تھی۔ ایک سال گزرنے کے بعد اب یہ شیشہ بار ویران دکھائی دیتا ہے اور اس دوکان کے شیشوں والی کھڑکیوں پر ہلاک شدگان کے ناموں کی پرچیاں لگی ہوئی ہیں۔

انیس فروری سن 2020 کو ایک نسل پسند انسان نے سازشی نظریات کی لپیٹ میں آتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کی تھی اور یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا خونی واقعہ قرار دیا گیا کیونکہ صرف ایک ہی دن کے کچھ گھنٹوں میں کم از کم نو افراد کو موت کے اندھے کنویں میں اتار دیا گیا تھا۔

ان افراد میں سبھی کا تعلق تارکینِ وطن خاندانوں سے تھا۔ اس فائرنگ سے جرمن ریاست ہیسے کے شہر ہاناؤ میں نو مقامات پر سوگ کی چادر تن گئی تھی۔ فائرنگ کرنے والے نسل پسند نے بعد میں اپنی والدہ اور خود کو بھی گولی مار کر ہلاک کر لیا تھا۔

شوٹنگ کے بعد ہلاک شدگان کے خاندانوں کے ساتھ سارے جرمنی میں اظہار یک جہتی کی خاطر لوگ جمع ہوئے اور مقتولین کی یاد میں شمعیں جلائی گئیں۔ مرکزی دعائیہ تقریب میں جرمنی کے صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر اور چانسلر انگیلا میرکل نے بھی شرکت کی۔

مرکزی دعائیہ تقریب میں جرمنی کے صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر اور چانسلر انگیلا میرکل نے بھی شرکت کی

ایک سال گزرنے کے بعد یہ اہم سوال اب بھی موجود ہے کہ کیا قوم پسندوں کے ممکنہ حملوں کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ کیا میرکل حکومت نے دائیں بازو کے انتہائی دائیں بازو کے نسل پسندانہ گروپ کو کنٹرول کر لیا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ہاناؤ واقعے کی کڑی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ نسل پرستی ایک زہر ہے، نفرت بھی زہر ہے اور یہ زہر ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور بہت سے جرائم کا ذمہ دار بھی ہے۔

انٹر ڈسپلنری ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اندریاس سِک کا خیال ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران دائیں بازو کے حلقے نے قوت حاصل کر لی ہے اور مضبوط بھی ہو گیا ہے۔ سِک کے مطابق ان کا اپنا ایک باقاعدہ نیٹ ورک ہے جو فعال ہے۔

جرمن خفیہ اداروں کے مطابق اس دائیں بازو کے گروپ میں شامل افراد کی تعداد پندرہ ہزار کے قریب ہے اور ان میں نسلی تعصب کے تحت پرتشدد اقدامات کرنے کا رویہ بھی موجود ہے۔ خفیہ اداروں کے مطابق ان میں بارہ سو افراد ایسے ہیں جن کے پاس لائسینس کے تحت آتشین اسلحہ بھی ہے اور یہ سن 2019 کے مقابلے میں پینتیس فیصد زائد ہو چکا ہے۔