اسلام آباد (جیوڈیسک) گزشتہ ایک سال کے دوران عوام کو جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ بجلی، گیس اور پیڑول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔ حکومت کمال ڈھٹائی سے قیمتوں میں اضافہ کرتی رہی، کبھی ڈالر کی قدر میں اضافے کو جوازبنایا گیا تو کبھی ملبہ پچھلی حکومت پر گرایا گیا۔
حکومت کا پہلا سال، توانائی بحران سے نمٹنے کی انوکھی حکمت عملی اپناتے ہوئے سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا، بجلی چوروں سے 1 ارب 37 کروڑ روپے کی وصولی کی گئی۔
ایک سال کے دوران حکومت نے گردشی قرضوں کا حجم کم کرنے اور گیس کمپنیوں کے مطالبے پر قیمتوں میں 333 فیصد جبکہ بجلی کی قیمتوں 2 روپے 76 پیسے کا اضافہ کیا یوں بجلی صارفین پر 300 ارب روپے جبکہ گیس صارفین پر 200 ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑا۔
گیس پریشر فیکٹر کے نام پر بھی سردیوں میں 32 لاکھ صارفین سے اربوں روپے کے اضافی بل وصول کیے گئے جو وزیراعظم کے احکامات کے باجود تاحال واپس نہ ہو سکے۔ حکومت کی جانب سے غریب گیس صارفین کے لیے 50 یونٹ تک کا نیا سلیب متعارف کروایا گیا جبکہ اوگرا نے دیگر تمام کٹیگریز کے لیے گیس کے کم سے کم ماہانہ بل میں 14 ہزار 811 روپے تک کا اضافہ کر دیا۔
سیلز ٹیکس کی شرح بڑھنے سے سی این جی کی قیمت میں بھی 21 روپے فی کلو کا اضافہ ہوا۔ حکومت کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ملک میں ایل این جی کا بڑا بحران پیدا ہوا تاہم حکومت توانائی بحران کا سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال رہی ہے۔
حکومت نے سعودی عرب سے تین سال تک تیل کی موخر ادائیگیوں کا معاہدہ کیا تاہم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران 22 روپے فی لٹر سے زائد کا اضافہ ہوا۔ بجلی چوری روکنے کے لیے حکومت نے موثر اقداما ت کیے اور 35 ہزار سے زائد مقدمات درج کرکے 5 ہزار 318 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
توانائی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک سال گزرنے کے بعد اب حکومت کو توانائی کے شعبے میں عوام کو ریلیف دینا ہوگا ورنہ شہری بجلی اور گیس کے بلوں کامزید بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گے۔