تحریر : سید توقیر زیدی وفاقی حکومت نے اگلے تین برس کے لئے جس تجارتی پالیسی کا اعلان کر دیاہے اس میں برآمدات کا ہدف 35ارب ڈالر رکھا گیا ہے سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان یہ ہدف حاصل کرسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہ صرف ہدف کا حصول ممکن ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ویلیو ایڈڈ اشیا تیار کی جائیں اور مارکیٹ میں پاکستانی برانڈز کی مصنوعات متعارف کرائی جائیں۔ مثال کے طورپر سیالکوٹ میں دنیا کے بہترین فٹ بال تیار ہوتے ہیں لیکن یہ فٹ بال دنیا کے مختلف برانڈز کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
سیالکوٹ شہر میں جو فٹ بال میڈان پاکستان کی مہر کے ساتھ تیار ہوتا ہے دنیا کی مارکیٹ میں اس کی قیمت بہت کم ہے جب کہ اس شہر میں انہی مشینوں پر، انہی کاریگروں کے ہاتھوں سے تیار ہونے والا عالمی برانڈ کا فٹ بال ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کی بہت سی مصنوعات غیر ملکی برانڈز کے لئے پاکستان میں بنتی ہیں تو ان کی قیمت زیادہ ہوتی ہے جبکہ یہی اشیا جب پاکستان کے برانڈ نام کے ساتھ عالمی مارکیٹ میں جاتی ہیں تو ان کی قیمت کم ہوتی ہے۔
ضرورت ہے پاکستان میں ایسی مارکیٹنگ کمپنیوں کی جو پاکستانی مصنوعات پاکستان کے نام سے تیار کریں اور عالمی مارکیٹ میں متعارف کرائیں پاکستان کے بہت سے صنعت کاروں نے بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کی صنعتیں لگائی ہیں، جبکہ بنگلہ دیش کے صنعت کار بھارت میں صنعتیں لگارہے ہیں ان صنعت کاروں کو پاکستان میں واپس لانے کی ضرورت ہے، اس وقت پاکستان میں گیس کی سپلائی کی صورت حال بہتر ہورہی ہے اور اس میں مزید بہتری کے امکانات ہیں۔ جیسے جیسے قطر سے ایل این جی کے جہاز آتے جائیں گے، سپلائی کی صورت حال بہتر ہوتی جائے گی اس طرح اگر برآمدی صنعتیں ہفتے میں چھ یا سات دن کام کریں گی تو پیداوار میں اضافہ ہوگا، برآمدی سودے بروقت تکمیل پذیر ہوں گے تو مزید آرڈر بھی مل سکتے ہیں۔
Pakistan Fisheries
پاکستان اگر اپنی فشریز کی صنعت کو ترقی دے تو برآمدات بڑی آسانی سے تین گنا تک بڑھ سکتی ہے۔ اس صنعت میں اس وقت مچھلیاں پکڑنے کے جو ٹرالر استعمال ہوتے ہیں ان کی رفتار بہت کم ہے اسی طرح مچھلی پکڑنے کے دوسرے آلات بھی پرانے اور فرسودہ ہیں، ماہی گیروں کو اگر آسان اقساط میں قرضے دیئے جائیں اور انہیں جدید ساز و سامان خرید کردیا جائے تو اس صنعت کو ترقی دی جاسکتی ہے۔ ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کے لئے دوسرے اقدامات میں یہ بات بھی شامل کی جاسکتی ہے کہ جہاں یہ مچھلی سٹور کی جاتی ہے وہاں صفائی کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔
یورپی یونین کے ملکوں میں مچھلی درآمد کرنے والے ویئرہاؤسز نے اس جانب پاکستان کی توجہ مبذول کرائی تھی کہ مچھلی ذخیرہ کرنے کے لئے صفائی ستھرائی کا اہتمام بہتر بنایا جائے تو پاکستان کو مچھلی کے زیادہ برآمدی آرڈر مل سکتے ہیں۔نئی تجارتی پالیسی میں حکومت نے جو سہولتیں دی ہیں وہ بھی ایکسپورٹ کے ہدف کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
زرعی مشینری اورپلانٹس درآمد کرنے پر سوفیصد مارک اپ سپورٹ اور پچاس فیصد سرمایہ کاری سپورٹ دی جائے گی۔ پاکستان نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ علاقائی تجارت میں پاکستان کا حصہ بڑھایا جائے گا۔ ایرانی صدر حسن روحانی 25مارچ کو پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں، ان سے تجارت بڑھانے پر بات چیت ہوگی۔
پاکستان ایران کی بہت سی ضروریات پوری کرسکتا ہے خاص طورپر پاکستانی چاول کی ایران میں بہت مانگ ہے، پاکستانی کنو بھی ایران کو برآمد کئے جاسکتے ہیں ایران کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدے پر بھی مذاکرات ہوں گے۔چین کے ساتھ پاکستان نے اپنی تجارت بڑھانے کے لئے اقدامات کئے ہیں اور پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل سے اس تجارت میں اضافہ ہوگا۔بی این پی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق رواں سال دنیا کے مختلف ملکوں میں ایک سو کے لگ بھگ نمائشیں ہوں گی جن سے برآمدی آرڈر مل سکتے ہیں۔
Pakistan Exports Products
چین کا ایگزم بینک اگلے سال سے کام شروع کردے گا جس سے تجارتی عمل میں بہتری آئے گی ،ایک زمانے میں پاکستان کے باسمتی چاول کی دنیا بھر میں بہت زیادہ مانگ تھی۔ لیکن تدریجاً اس میں کمی ہوتی گئی کیونکہ ہائی برڈ بیج سے پیداوار تو بڑھ گئی لیکن چاول کی کوالٹی کم ہوگئی پھر یہ ہوا کہ بھارت نے پاکستان کا بہترین چاول بھارت کی پیداوار کے طورپر برآمد کر دیا اور اپنے گھٹیاچاول کی پیکنگ پر ”پاکستان کی پیداوار ” کی مہر لگادی اس سے بھی پاکستان کو نقصان ہوا، تاہم یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور پاکستان کو اپنی دفاعی مصنوعات برآمد کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔
پاکستان میں تیار ہونے والے جے ایف 17ـتھنڈر، سپر مشاق طیارے اور ڈرون طیارے دنیا کی مارکیٹ میں اپنا سکہ جما سکتے ہیں۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے اور پیداوار میں اضافہ کرکے برآمدات تیزی سے بڑھائی جاسکتی ہیں۔
ان طیاروں کی تیاری چند سال میں دو گنا کی جائے اور برآمدی سودوں پر توجہ مرکوز رکھی جائے تو 35ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف بہت آسانی سے حاصل ہوسکتا ہے۔تجزیاتی رپورٹ کے مطابق نئی آٹو پالیسی سے ملکی معیشت پر مثبت ثرات مرتب ہوںگے۔ برآمدات کا ہدف 35ارب ڈالر رکھا گیا۔ اسی پالیسی سے مقررہ ٹارگٹ حاصل کرنا آسان ہو گا۔