مستقبل کا علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ صرف وہی جانتا ہے کہ آنے والے لمحہ میں کیا ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ہی غیب کا علم ہے۔ یہ غیب چاہے ماضی سے تعلق رکھتا ہو، یہ غیب چاہے موجودہ زمانے میں ہویا اس کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے سوا غیب کوئی بھی نہیں جانتا۔ ازل سے ابدتک کے تمام علوم اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ علیم بھی ہے خبیربھی۔اللہ تعالیٰ نے غیب کاعلم اپنے خاص بندوںکوعطاکررکھا ہے۔اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ علم سے اللہ تعالیٰ کے خاص بندے بھی غیب کاعلم بتادیتے ہیں۔ قارئین کے ذہن میں یہ سوال پیداہوسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بھی غیب کاعلم اوراللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے پاس بھی غیب کاعلم یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس غیب کاعلم ذاتی ہے اوراس کے خاص بندوںکے پاس صفاتی۔ آنے والے حالات کے بارے میں پشین گوئیاںصرف موجودہ زمانے کے لوگ ہی نہیںکررہے ہیں بلکہ اس کاآغازتوتخلیق آدم کے وقت ہوئی تھی۔
جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میںزمین پراپناخلیفہ بنارہا ہوں تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ کیاتواسے خلیفہ بنائے گا جوزمین میں خون ریزیاںکرے گا فساد کرے گا۔ آنے والے وقت میں انسان کیاکیاکرے گا فرشتے اس کی پشین گوئی کررہے تھے۔ آنے والے وقت میں کیاہونے والاہے اس کی پشین گوئی زمین بھی کرچکی ہے۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا کہ زمین پرجااوروہاں سے مٹی لے آ اس سے تخلیق آدم ہوگی۔ جبرائیل علیہ السلام زمین پرآئے اورزمین سے مٹی اٹھانے لگے توزمین نے فریادکی کہ مجھ سے مٹی نہ لے جا ۔ اللہ تعالیٰ اس مٹی سے انسان تخلیق کرے گا ، یہ انسان زمین میں فسادکرے گا، اللہ کی نافرمانی کرے گا، پھراسے قیامت کے روزدوزخ میں ڈالاجائے گا میں اللہ تعالیٰ کاعذاب برداشت نہیںکرسکتی۔ جبرائیل علیہ السلام زمین سے مٹی اٹھائے بغیرواپس چلے گئے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بالترتیب میکائیل اورحضرت اسرافیل علیہم السلام کوزمین پرمٹی لینے کے لیے بھیجا ۔ زمین نے ان دونوں فرشتوں سے وہی فریادکی جواس نے جبرائیل علیہ السلام سے کی تھی۔ یہ دونوں فرشتے بھی زمین سے مٹی اٹھائے بغیرواپس چلے گئے۔
مستقبل میںکیاہونے والا ہے اس کی پشین گوئی ملک الموت بھی کرچکا ہے وہ اس طرح کہ جب تینوں فرشتوںنے زمین کے فریادکرنے کی وجہ سے زمین سے مٹی نہ لے گئے تو اللہ تعالیٰ نے عزرائیل علیہ السلام کوبھیجا کہ وہ زمین سے مٹی لے آئے۔ عزرائیل علیہ السلام جب زمین پرآئے اورمٹی اٹھانے لگے توزمین نے عزرائیل علیہ السلام سے بھی وہی فریادکی جواس نے اس سے پہلے تینوں فرشتوں سے کی۔ زمین نے عزارئیل علیہ السلام سے کہا کہ تجھے اللہ کاواسطہ یہ مٹی مجھ سے نہ لے جا۔ عزارئیل علیہ السلام نے کہا کہ تجھے بھی اللہ کاواسطہ مجھے مٹی اٹھانے سے نہ روک ۔ اس کاحکم اللہ تعالیٰ نے ہی مجھے دیا ہے ۔ میں اس کی نافرمانی نہیںکرسکتا ۔عزرائیل علیہ السلام زمین سے مٹی لے گئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب ان کی روحین بھی توقبض کرے گا۔ عزرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ اس طرح وہ مجھے اچھانہیں سمجھیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ا سباب پیداکردوںگا تیرانام کوئی نہیں لے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوجب قوم نے کہا کہ ہمارے ساتھ میلے میں چلو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستاروںکی طرف دیکھ کرفرمایا کہ میں عنقریب بیمارہونے والا ہوں اس لیے میلے میںنہیںجاسکتا۔
چیونٹیوں کی ملکہ نے چیونٹیوں سے کہا کہ تم سب اپنی اپنی بلوںمیں چھپ جائو حضرت سلیمان علیہ السلام کالشکرآرہا ہے کہیں ایسانہ ہوکہ بے خبری میں کچلی جائو۔اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ غیب کاعلم رسول کریم، دریتیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوعطافرمایا ۔قرآن پاک کی متعدد آیات مبارکہ اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوغیب کاعلم عطافرمایا۔ اس بات کاثبوت احادیث مبارکہ میں بھی ملتاہے۔ جیسا کہ اس تحریر میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ غیب کاتعلق ماضی سے بھی ہوسکتا ہے ، موجودہ زمانے اورمستقبل سے بھی ۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ نے غیب کے علم سے متعلق بارگاہ نبوت میں ایک ایساسوال کاجس کاتعلق گزرے ہوئے زمانے سے تھا۔
یہ گزراہوازمانہ دوچارسال یاسودوسوسال کانہیں بلکہ ہزاروںسال پہلے سے تعلق رکھتا تھا۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیک وآلک وسلم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کس چیزکوپیداکیا۔ رحمت دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غیب کے بارے میں جوبھی پوچھناہوتا بارگاہ رسالت میں حاضرہوجاتے۔ایک صحابی نے عرض کی کہ یارسول اللہ قیامت کے دن آپ کوکہاں تلاش کریں تورسول اکرم نورمجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں حوض کوثر، میزان عمل یاپل صراط پرہوںگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سوال کاجواب بھی عطافرمادیا جس کاتعلق ماضی بعیدسے تھا اوراس سوال کاجواب بھی دے دیا جس کاتعلق قیامت (مستقبل ) سے تھا۔
سب سے بڑا غیب توخود اللہ تعالیٰ ہے۔ اس دورمیںبھی اورآج کے دورمیں بھی مشرک وکافر یہ سوال کرتے ہیں کہ اللہ کہاں ہے ۔ ہے تودکھائو۔ کافروںکے اس سوال کاجواب ہردورمیں اللہ کے پیارے بندے اس طرح دیتے آئے ہیں کہ سوال کرنے والے لاجواب ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیاپرلکھاہواپڑھا ہے کہ بھارت میں ایک سکول ٹیچر نے سٹوڈنٹس سے پوچھا کہ کیاتمہیں اللہ دکھائی دیتا ہے ، سٹوڈنٹس نے کہا نہیں، اس پراس ہندوٹیچرنے کہا ہوتا تودکھائی دیتا، اسی کلاس میں مسلمان طالب علم بھی تھا۔ اس نے کلاس کے لڑکوں سے پوچھا تمہیں اس (ٹیچر) کی عقل نظرآرہی ہے ، لڑکوںنے کہا نہیں اس پرمسلمان طالب علم نے کہا ( ٹیچر میں عقل ) ہوتی تودکھائی دیتی۔ اللہ تعالیٰ غیب ہے ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی بتایا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی توبتایا ہے کہ اللہ ایک ہے، اللہ وحدہ لاشریک ہے، صرف اسی کی عبادت کرو، صرف اس کی پرسش کرو، اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی ہمیں روشناس کرایا ہے۔ غیب کاعلم انبیاء کرام علیہم السلام بعدکے اللہ تعالیٰ کی عطا سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اوراولیائے کاملین کے پاس بھی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ مجھ سے جوپوچھنا ہے پوچھو میںبتائوںگا۔ جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں آگئے اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا کہ اس وقت جبرائیل کہاں ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ہرطرف دیکھ کرفرمایا کہ جبرائیل نہ توآسمانوںپرہے اورنہ ہی زمین پر۔ ہم دونوںمیں سے ہی کوئی جبرائیل ہے ۔ میںتوہوںنہیں لہٰذا تم ہی جبرائیل ہو۔جب کوئی انسان خواب دیکھ رہا ہوتا ہے تواس کے ساتھ سوئے ہوئے شخص کوبھی معلوم نہیںہوتا کہ اس کے ساتھ سونے والافردخواب میںکیادیکھ رہا ہے۔خواب کاعلم اللہ تعالیٰ کوہوتا ہے کہ اس کے بندے نے خواب میں کیا دیکھا ہے، خواب کے بارے میں خواب دیکھنے والاہی جانتا ہے کہ اس نے خواب میںکیادیکھا ہے یاوہ شخص جانتا ہے جس کوخواب کی تعبیرپوچھنے کے لیے خواب دیکھنے والابتاتاہے کہ اس نے خواب میں کیادیکھا۔ اللہ تعالیٰ کے ولی ایسے بھی ہیںجویہ جانتے ہیں کہ کس نے خواب میںکیادیکھا ہے۔
مشہورواقعہ ہے کہ حضرت بہلول دانا مٹی کے گھروندے بنارہے تھے۔ وہاں اس دورکی خاتون اول کاگزرہوا۔ اس نے حضرت بہلول داناسے پوچھا : بابا ! یہ کیابنارہے ہو۔ حضرت بہلول دانانے فرمایاجنت میں گھربنارہا ہوں۔ خاتون اول نے پوچھا کیابیچوگے۔ اللہ کے ولی نے فرمایاہاں بیچوں گا۔ خاتون اول نے قیمت پوچھی حضرت بہلول دانانے جنت میں گھرکی قیمت بتائی ،خاتون اول نے قیمت اداکی اورایک گھروندا اٹھالیا۔ اس نے اپنایہ گھروندا اپنے کمرے میں رکھ دیا۔ رات کوملک کاسربراہ آیا اس نے کمرے میںمٹی دیکھی توخاتون اول سے پوچھا کہ یہ کیاہے ۔ اس نے جواب دیا کہ جنت میں گھرخریدلائی ہوں۔ ملک کے سربراہ نے پوچھا ، کس سے ، خاتون اول نے جواب دیا کہ بہلول داناسے۔ ملک کے سربراہ نے کہا کہ یہ تومٹی ہے۔ ا س نے یہ ماننے سے انکارکردیا کہ یہ جنت میں گھرخریدلائی ہے۔ ملک کے سربراہ نے رات کوخواب دیکھا۔ دن کے وقت وہ خود ہی حضرت بہلول داناکے پاس جنت میں گھرخریدنے پہنچ گیا ۔
ملک کے سربراہ نے حضرت بہلول داناسے جنت میںگھرکی قیمت پوچھی تواللہ کے ولی نے جوقیمت خاتون اول کوبتائی تھی اس سے کہیںزیادہ ملک کے سربراہ کوبتائی۔ ملک کے سربراہ نے کہا کہ میری بیوی کوتواتنی قیمت میں جنت میںگھرفروخت کیا اورمجھے اتنی زیادہ قیمت کیوںبتائی ۔ حضرت بہلول دانانے فرمایا کہ تیری بیوی نے بغیردیکھے یقین کرلیاتھا اوراب تو دیکھ کرآیا ہے۔ ملک سے سربراہ نے جوبھی دیکھا تھا خواب میں دیکھا تھا۔ اللہ کے ولی حضرت بہلول دانانے اسے بتادیا کہ اس نے خواب میںکیادیکھا ہے۔ حضرت شرف الدین بوصیری رحمة اللہ علیہ سے ایک درویش نے کہا تھا کہ ہمیں وہی نعت سنائو جوگزشتہ رات کونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوسناچکے ہو۔ غیب کاعلم اللہ تعالیٰ کے بعد انبیاء کرام، صحابہ کرام اوراولیاء کرام کے بعدکسی کونہیں۔ البتہ آنے والے وقت کے بارے میںکچھ امیدیں اورتوقعات ہوتی ہیں کچھ خدشات ہوتے ہیں، کچھ پلاننگز اورمنصوبے ہوتے ہیں، ہم خودہی کہتے ہیں کہ آنے والے وقت میںکیاہونے والا ہے پھرخودہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ کل کیاہونے والا ہے۔
جب کسی کوعلم نہیں کہ کل کیاہونے والاہے توہم کیسے کہہ دیتے ہیں کہ کل کیاہونے والا ہے۔ یہ ہماری سوچ ہوتی ہے، ہماری امید، توقع ہوتی ہے، ہمارے خدشات ہوتے ہیں ، ہماری سوچ کے مطابق امکانات ہوتے ہیں۔ ہم روزانہ ریڈیوٹی وی پرموسم کااحوال سنتے ہیں۔ موسم کے احوال میںبتایا جاتا ہے کہ آنے والے بارہ یاچوبیس گھنٹے میںموسم کیسارہے گا، کہاںکہاں گرمی زیادہ رہے گی اورکہاں کہاں سردی، کہاں کہاں بارش برسے گی اورکہاں کہاں آندھیاں آئیں گی۔ کہاںکہاں بادل چھائے رہیں گے اورکہاں کہاںمطلع صاف رہے گا۔ یہ سب امکانات ہوتے ہیں کہ ایساہوسکتا ہے۔
وقت کی اکائیوں میں سال بھی شامل ہے ۔ اس وقت سال تین طرح کے ہیں ، ہرسال بارہ ماہ کاہی ہے، البتہ تینوں طرح کے سالوں کے ایام کی تعدادایک جیسی نہیں ہے۔ ایک ہجری سال ہے جس کوقمری سال بھی کہتے ہیں جومحرم الحرام سے شروع ہوتا ہے اورذی الحجہ پر اختتام پذیرہوجاتا ہے۔ ہمارے اسلامی تہوارقمری مہینوں اورتاریخوں کے مطابق منائے جاتے ہیں۔ ایک عیسوی سال ہے جسے شمسی سال بھی کہا جاتا ہے جنوری سے شروع ہوکردسمبرتک ختم ہوجاتاہے۔ہماراسرکاری نظام الاوقات شمسی سال اورمہینوں کے مطابق ترتیب دیاگیا ہے۔ ایک سال بکرمی ہے جسے جٹاکا سال بھی کہا جاتا ہے ،اس سال کادورانیہ چیت سے ماگھ تک ہے۔ جب یہ سطورلکھی جارہی ہیں نئے شمسی سال کوشروع ہوئے دوسرے دن کاسورج سارادن ڈیوٹی کرنے کے بعد رات کی چادراوڑھنے کی تیاری کررہا ہے۔ نئے شمسی سال میں کیاہونے والا ہے، کیاامیدیں، توقعات اورخدشات وامکانات ہیں۔ اس بارے میں اظہارخیال کیاگیا ہے۔ پاک فوج نے امیدظاہرکی ہے کہ نیاشمسی سال دوہزارانیس پاکستان کی ترقی کاسال ہوگا۔
صدرپاکستان عارف علوی نے بھی یہی توقع ظاہرکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان پرامیدہیں کہ نیاشمسی سال پاکستان کے لیے سنہرے دور کاآغازہے۔ عثمان بزدارکہتے ہیں کہ نیاسال وعدوںکی تکمیل کاہے۔ شیخ رشیدنے نئے شمسی سال میں بیس نئی ٹرینیں چلانے کی خوش خبری سنائی ہے۔ ایک قومی اخبارکے سروے کے مطابق حکومت کہتی ہے کہ نئے شمسی سال میں خوش حالی آئے گی عوام کوریلیف ملے گا، اپوزیشن کاکہنا ہے کہ سب پرانی تنخواہ پرکام کریں گے۔
چاہے ہجری سال کاآغازہویاشمسی سال کا۔ ہمیں گزرے ہوئے سال میں اپنااحتساب کرناچاہیے کہ ہم نے گزرے ہوئے سال میں ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول کی کتنی نافرمانیاں کیں۔ ہم نے گزرے ہوئے سال میں کتنے فرائض قضاکیے، کتنے واجبات اورسنن اداکیں۔ کتنے حقوق العباداداکیے اور کتنے انسانوں کے حقوق ادانہیں کیے۔ہم نے کتنے لوگوںکوخوش کیا اورکتنے لوگوںکے دل دکھائے۔ ہم نے کتنے فیصد اپنی ذمہ داریاں اداکیں اورکتنے فیصدذمہ داریوں سے غفلت برتی۔ ہمیں نئے سال کی خوشی منانے کے بجائے زندگی کاایک اورسال ختم ہونے پراوراس گزرے ہوئے سال میں کی جانے والی غفلت، غلطیوں اورخطائوں پرافسوس کرناچاہیے، اللہ تعالیٰ سے دعامانگنی چاہیے کہ جوغلطیاں، غفلتیں اورخطائیں گزشتہ سال میں ہوئیں ان سے ہمیں آنے والے سال میں محفوظ رکھے۔ ہمیں اپنے فرائض، واجبات، سنن اوردوسروں کے حقوق اداکرنے کی توفیق عطا کرے۔