واشنگٹن (جیوڈیسک) ناسا کے سائنسدانوں نے تصدیق کی ہے کہ عالمی سطح پر رواں سال اپریل کا مہینہ گرم ترین رہا ہے جو اوسط سے 1.11 سینٹی گریڈ گرم تھا جب کہ ابتدائی 3 ماہ کے بھی درجہ حرارت معمول سے زیادہ تھے اور اس طرح 2016 انسان کی معلومہ تاریخ کا گرم ترین برس ثابت ہوسکتا ہے۔
ناسا کے سائنسدانوں نے تصدیق کی ہے کہ اس سال اپریل کا مہینہ گرم ترین رہا ہے جو اوسط سے 1.11 سینٹی گریڈ گرم تھا جب کہ سال 2016 کے ابتدائی 3 مہینے بھی ریکارڈ گرم رہے تھے۔ ناسا کے آب و ہوا کے ڈیٹا ریکارڈ نے پیش گوئی کی تھی کہ 2016 ایک اور ریکارڈ گرم ترین سال ہوگا۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک ایل نینو اس گرمی کا ذمے دار ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ فرق اتنا زیادہ ہوگا۔ ماہرین کے مطابق ایل نینو کے ایک بڑے واقعے کے بعد گرم پانی کی لہریں جنوبی بحرالکاہل ( پیسیفک) کی جانب بڑھیں اور اس کا اثر پورے کرہ ارض پر پڑا۔ ناسا کے گوڈارڈ اسپیس سسٹم اور نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹماسفیئرک ایجنسی (این او اے اے) کےمطابق اس سال جنوری اور فروری اگرچہ سردی کے مہینے تھے لیکن ان مہینوں کا اوسط درجہ حرارت بالترتیب 1.13 اور 1.34 درجہ سینٹی گریڈ گرم تھے۔ اس کے علاوہ مارچ بقیہ مہینوں کے مقابلے میں 1.28 سینٹی گریڈ گرم تھا۔
دوسری جانب سائنسدانوں نے کہا ہے کہ آسٹریلیا کے سمندروں میں مونگے اور مرجانی سلسلوں کی پلیچنگ بھی نوٹ کی گئی ہے جب کہ بعض افریقی ممالک اس وقت شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس کے علاوہ سولومن جزائر میں موجود 5 اہم جزیرے سمندر میں غائب ہوچکے ہیں۔ 2016 گرم ترین سال؟
این او اے اے کے مطابق زمین پر 1880 کے بعد سے اب تک درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھا جارہا ہے جس کے تحت 2016 گرم ترین سال ہوسکتا ہے کیونکہ لگاتار 4 مہینوں تک اوسط درجہ حرارت سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے۔
کرسچیئن ایڈ نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ 2060 تک دنیا کے ساحلی علاقوں پر رہنے والے ایک ارب افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ غریب ممالک کی مدد کے لیے 100 ارب ڈالر کا کلائمٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے تاکہ آب و ہوا میں تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والے افراد کی مدد کی جاسکے۔