ٹھیک سات سال بعد

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : شاہ بانو میر

فیس بک کا میسج تھا کہ آج فیس بک کو جوائن کئے 7 سال ہو گئے اور ٹھیک آج ہی کے دن جب فیس بک بنائی تھی 7 سال بعد عمران خان وزیر اعظم منتخب ہو گئے فیس بک پیج پی ٹی آئی کیلئے بنایا تھا فرانس میں پارٹی کی بنیاد ڈالی وویمن ونگ کی پہلی صدر کے طور پر
پھر
تحریک سیاست بنی اور سیاست آتی نہیں تھی
لہٰذا
راستہ الگ ہو گیا
نہ پارٹی بدلی نہ رہنما
طریقہ کار سے اختلاف تھا وہ ہے اور رہے گا
اب میری بات کی تائید ہر معروف ٹی وی اینکر اور تجزیہ کار کرتا دکھائی دیتا ہے
مبارکباد کہ عمران خان آج وزیر اعظم بن گئے
ٹھیک 7 سال بعد بظاہر منزل مل گئی
ہزار اختلاف ہو عمران خان سے
مگر
وہ پاکستان کیلیۓ الگ سوچ رکھنے والا پاکستانی ہے
وزیر اعظم کے طور پر عمران خان کو اپنا انداز بدلنا ہوگا یہی میرا اختلاف تھا
ماجے ساجھے والی زبان اتنے پڑھے لکھے آدمی کو سیاست میں بھی سوٹ نہیں کرتی
افسوس
کہ
پہلی تقریر بالکل بھارت کے منتخب وزیر اعظم جیسی لگی
جس کی کامیابی کی بنیاد پاکستان کو گالیاں دینا ہے
منتخب ہو کر وہ اپنے ووٹرز کی نفسیاتی تائید کیلیۓ ضرور پاکستان کو برا بھلا کہتا ہے
عمران خان کی تقریر بھی نفسیاتی دباؤ میں ملک کے وزیر اعظم کی نہیں
پی ٹی آئی کے چئیر مین کی لگی جو ابھی تک اپوزیشن میں بیٹھا ہے
انتہائی مایوس کُن تقریر اور رد عمل کے طور پر اپوزیشن کا شور شرابہ
عمران خان اب ذمہ داری کی گاگر ہے سر پر تیز چلنے سے چھلک سکتی ہے
سنبھل کر چلنا ہوگا
یہ ملک قائد اعظم نےبنایا تھا
راتوں رات نہیں بنا
لاکھوں شہیدوں کا خون اڑہائی لاکھ عصمتوں کی سسکیاں ہیں
ہم سب بھول کر صرف سیاست کو زندہ رکھ بیٹھے
جس میں ملک کہیں نہیں سوائے ہماری باتوں کے
ہم اسے قائم رکھنے اور اس آزادی کی قدر کرنے کی بجائے
کیوں اپنے ہاتھوں اس کی آزادی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں
آج ہی بھارت میں وہاں کے مسلمانوں نے مودی کے کہنے پر
ہمارے پرچم کو جلا کر پاکستان کیلئے نازیبا زبان استعمال کی
آج بھارت سے مہمان آئے ہیں مبارکباد دینے اور
حکمران اگر کل مصلحت کوش تھا
تو آج کا حکمران بھی اسی سیاسی مصلحت کا شکار ہے
قوم سے بلند و بانگ دعوےٰ کر کے اقتدار تو مل گیا
مگر وزیر اعظم سب کا ہوگا تو قابل قبول ہے ورنہ مسئلہ ٹیڑھا ہے
بد لحاظ زبان جارحانہ رویہ ریاست مدینہ کے والیوں کا کبھی نہیں رہا
کتابیں کھول کر پہلے ریاست مدینہ کا تحمل تہذیب شائستگی عاجزی اور انکساری ملاحظہ فرمائیں
آپ کے اس رویّے سے کیا پاکستان جمہوری روایات کو سلیقے سے آگے بڑھا سکے گا؟
ملک کو چلانے کیلئے مضبوط جمہوری قیادت اور جمہوری ٹیم اور مضبوط سربراہ ہونا لازم ہے
سیاسی درجہ حرارت اس وقت بہت بلندی پر ہے حکمران جماعت کو بغیر ماحول خراب کئے عمل کر کے دکھانا بہت بڑا چیلنج ہے
زبانی دعوےّ بہت آسان ہیں پاکستان جیسا ملک جہاں ہر ادارہ غیر مرئی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے
اس کو آزاد کروا کے من پسند نتائج حاصل کرنا مشکل امر ہے
اللہ سے آسانی اور مدد قدم قدم پر مانگنی ہوگی
صرف اپنی ذات پر یقین ناکامی ہے
پاکستان ترقی کرے گا اگر حکمران جماعت مصنوعی دباؤ اور دھونس ختم کرے مخالفین کو نرمی اور عزت دے
تبدیلی سنائی دے رہی ہے عملی طور پے دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ چہرے ابھی تک پرانے ہیں
پنجاب میں گمنام کمزور سیاسی کارکن کو وزیر اعلیٰ لگانا نشاندہی کر رہا ہے کہ
ابھی اصل وزیر اعلیٰ آنا باقی ہے
شکر تو یہ ہے کہ الیکشن کا مکمل دور ہر قسم کے شور کے باوجود اختتام پزیر ہوا
عمران خان اپنے دور اقتدار میں کیا واقعی دہائیوں کی خستہ حالی کم علمی اور کمزور قوم کو طاقتور بنا سکیں گے؟
عمران خان واقعی ایسا کچھ کر جائیں گے کہ
ملک آزادانہ جمہوری نظام کا حامل ہوگا؟
پاکستان امت مسلمہ کو سنجیدہ چیلنجز درپیش ہیں
ترکی کی حمایت امت کا عضو ہونے کی وجہ سے وزیرا عظم پاکستان کی ترجیح ہونی چاہیے
اسلامی ممالک کے ساتھ یکجہتی اور ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم
دوسری طرف ایران اور بھارت کے معاملات کھٹائی میں ہونے کی وجہ سے پاکستان پیش قدمی کر کے ایران سے برادارنہ تعلقات کو بہتر کر سکتا ہے
امریکہ اور یورپین کمینوٹی کو پاکستان کی بہتر حیثیت سمجھانے کی ضرورت ہے
ھالینڈ میں پیارے نبیﷺ کے لئے جو بہیمانہ مہم چلائی جا رہی ہے
سرکاری سطح پر اس پر شدید رد عمل کی ضرورت ہے
عوام کا ہی نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حمیت بھی اس پر بات کرے
کشمیر رگ جاں ہے اس کو زِگ زیگ نہیں اب سیدھی لکیر پر چل کر حل کروانا ہوگا
پاکستان کو بھارتی جارحیت اور اس کے پیچھے موجود اصل مکروہ چہروں کو بے نقاب کر کے
پاکستان سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا

کبھی بھی عمران خان تبدیلی نہیں لا سکیں گے
جب تک کہ وہ
قرآن کو ترجمے کے ساتھ تعلیمی اداروں میں رائج نہیں کرتے
آپ ہسپتال بنا کر مفت تعلیم دے کر عوام کو قدرے عزت دے سکتے ہیں
ان کی تذلیل میں کمی لا کر دل نرم کر سکتے ہیں
مگر
ایک حقیقی زندہ قوم وہ ہے جو اشاروں پر نہ چلے
جس کی تربیت اس کے ادارے ایسے کریں کہ
وہ خود اپنے خالق کو پہچانے زندگی میں اس کا دین کتنا اہم ہے جو رسمیہ نہ ہو بلکہ عملی ہو
اسے قرآن حدیث کا ترجمہ سمجھ آتا ہو
تب وہ کسی دوسرے پر باوجود طاقت اور اختیار رکھنے کے
ہاتھ اٹھانے اور بندوق اٹھانے سے پرہیز کرے گا
دولت کا عہدے کا نشہ انسان کو انسانیت کے مقام سے گرا کر زیر زمین قارون کی طرح دھنسا دیتا ہے
خوف خُدا اجاگر کرنا ہوگا
عوام کا سمندر قرآن کے ترجمے سے بدلے گا
اجتماعی سوچ میں مثبت رویہ پیدا ہوگا تو
تبدیلی کہی جا سکتی ہے
وگرنہ چند سکول کچھ کتابیں کچھ ہسپتال سب نفسیاتی تبدیلی ہے
زمینی حقائق پت پردہ ہوگا
پاکستان 71 سال کا ہو گیا
اور
عوام کسی اپاہج بچے کی طرح اپنی اصل عمر سے کئی سال پیچھے رینگ رینگ کر اوں اوں کر رہی ہے
پچھلی حکومت بنیاد بنا گئی اب اس کو مزید سنوارنا ہوگا
پچھلی حکومت ایک مضبوط بنیاد بنا کر گئی ہے جسے ماننا سیاسی اعلیٰ ظرفی ہوگی
ملکی اندرونی حالات پیچیدہ اور کوئٹہ سے وزیرستان تک بہت کچھ ناقابل تحریر ہو رہا ہے
پاکستان اس وقت سیاسی ماحول کے حوالے سے خطرے کے آخری نشان پر ہے
سنجیدہ بات تو یہ ہے کہ اب دونوں جانب سے ذمہ داری بردباری کا مظاہرہ ضروری ہے
دل تھک چکے ہیں 5 سال سے شور شور سن کر
حکمران جماعت کو ہنگامہ آرائی غیر سنجیدگی چھوڑ کر خاموشی سے کام کرنا ہوگا
آج سات سال بعد جس مقصد کیلئے فیس بک کو جوائن کیا تھا
وہ پورا ہو گیا
مگر منزل ابھی بہت دور ہے
دیکھنا ہے کہ
رہنما حکمت سے منزل تک لے جاتا ہے یا بیچ راستے میں پھر کوئی؟؟؟؟؟؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر