تحریر : محمد شاہد محمود مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کا موجودہ دور نوجوان کشمیری رہنما برہان احمد وانی کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوں کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے. بھارتی قابض افواج مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو قتل کرنے کی غرض سے مہلک ترین ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج نے جان بوجھ کر پیلٹ گنز کے استعمال سے کشمیریوں کو شہید کیا۔ پیلٹ گنز کے استعمال سے ایک ہزار سے زائد کشمیری بچے بینائی سے مکمل اور جزوی طور پر محروم ہو چکے ہیں۔ جماعةالدعوة پاکستان کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید کا کہنا ہے کہ سال 2017ء کشمیر کے نام کرنے پر نظربند کیا گیا’ 2018ء بھی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے نام کرتے ہیں۔ پورے ملک میں کشمیرکانفرنسوں، جلسوں اور سیمینار ز کا انعقاد کیا جائیگا۔بھارت چاہتا ہے ہم کشمیر کی بات کرنا چھوڑ دیں’ حکومت پر دبائو بڑھایا جارہا ہے۔
حالات خواہ کیسے بھی کیوں نہ ہوں مظلوم کشمیریوں کی مددوحمایت جاری رکھیں گے۔بیک چینل ڈپلومیسی سے مسئلہ کشمیر کا ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔ کشمیریوں کو آزادی قربانیوں و شہادتوں کا راستہ اختیار کرنے سے ہی ملے گی۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کشمیر عروج پر تھی۔ میں نے اسلام آباد میں حریت کانفرنس کے مرکزی قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران سال 2017ء کو کشمیر کے نام کیا اور ملک گیر سطح پر بڑے پروگراموں کا آغاز کیا تو انڈیا کو یہ بات برداشت نہیں ہوئی اور اس نے امریکہ کے ذریعے پاکستان پر دبائو بڑھانا شروع کر دیا۔ میں سمجھتاہوں کہ یہی وہ چیز تھی جو میری نظربندی کی بنیاد بنی۔ میری رہائی پر بھارت میں صف ماتم کی کیفیت ہے۔ اترپردیش سمیت دیگر علاقوں میں بھارتی مسلمانوں کی جانب سے خوشیاں منائی گئیں۔
انڈیا میں پاکستانی پرچموں کا لہرایا جانا میں تحریک آزادی کشمیر کیلئے اچھی بات سمجھتاہوں۔ ہماری وزارت خارجہ کو بھی دنیا بھر میں اپنے سفارتی ڈیسک کو متحرک کرتے ہوئے انڈیا کی دہشت گردی کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ برھان وانی کی شہادت کے بعد تحریک تیز ہوئی۔ کشمیریوں نے کاروبار، تعلیم سمیت ہر قسم کی قربانی دی۔ ہمیں کشمیریوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کرنی ہے۔پاکستان اور آزاد کشمیر کے رہنماوں کو بھی کھڑا ہونا ہوگا ۔کشمیر سے کوتاہی کا نتیجہ ہے کہ حکمران کرپشن کے مقدموں اور پاناما لیکس میں پھنس گئے ہیں۔ہم آزاد کشمیر اور پاکستان میں کشمیر کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنسیں اور بڑے جلسے کرکے حکومت کو کشمیر کے حوالہ سے آواز اٹھانے پر مجبور کریں گے۔ ہم مقبوضہ کشمیر کی آواز بنیں گے اور کشمیریوںکے کندھوں سے کندھا ملا کر چلیں گے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما غلام محمد صفی کا کہنا ہے کہ آج کی پریس کانفرنس کشمیر کے حوالہ سے پاکستان میں عوامی بیداری اور حکومتوں کو احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے پہلا عملی قدم ہے۔ہندوستان کشمیر میں مسلم اکثریتی تشخص کو ختم کرکے اقلیت میں تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔
جموں میں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے جہاں مسلمانوں کی بستیوں کو خاکستر کیا جارہا ہے۔ اگر بھارت کی قابض فوج ظلم کرتی ہے تو کشمیریوں کو حق پہنچتا ہے وہ ان کو جواب دیں ۔پاکستان ہندوستانی میڈیا کے پروپیگنڈے کی وجہ سے معذرت خواہانہ رویہ نہ اپنائے۔ انڈیا جماعة الدعوہ کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک طبقہ چاہتا ہے کہ جماعة الدعوہ کشمیر پر بات نہ کرے کیونکہ پاکستان سے توانا آواز حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت ہے۔ برھان وانی نے سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا کو پیغام دیا کہ بھارت نے ہمارے حقوق غضب کررکھے ہیں۔ برھان وانی کے انٹرنیٹ استعمال کے بعد انڈیا نے کشمیریوں سے وہ سہولت بھی چھین لی۔ کشمیری سفید کفن کی بجائے شہدا کو سبز ہلالی پرچم میں دفن کرتے ہیں۔ کشمیریوں کی آواز بلند کرنے پر جماعة الدعوہ و کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔سال 2018 ء مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا سال ہو گا۔2017 ء کا سال تحریک آزادی کشمیر کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل رہا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی نے ایک نیا موڑ لیا۔برہان وانی کی شہادت نے ہماری آزادی کی تحریک کو ایک نئی امید ایک نئی کرن، ایک نئی جدت بخشی۔ یہ تحریک خالصتاً جمہوری اور ریاستی ہے بھارت تمام تر ہتھکنڈوں تمام تر مظالم کے باوجود اس تحریک کا دم خم ختم نہ کر سکا۔بھارتی فورسز نے آپریشن آل اوٹ کے نام پر کشمیری نوجوانوں کے ساتھ ساتھ کئی خواتین کو ناحق قتل کیا۔ امن اورسکیورٹی کے نام پر پر امن احتجاجی مظاہرین پر گولیاں اور پلٹ برساکر سینکڑوں نوجوانوں کوبینائی سے محروم کردیا گیا۔
ایک منصوبہ بند سازش کے تحت این آئی اے اور دوسری سکیورٹی ایجنسیوں کو متحرک کرکے تحریک سے وابستہ قائدین اورکارکنوں کو زینتِ زنداں بنایاگیا۔ فورسز کی یہ کارروائیاں نہ صرف قابل مذمت ہیں بلکہ اقوام عالم کیلئے چشم کشا ہیں۔سال 2017 مقبوضہ کشمیر کے لئے خونریزی اور تباہی کا ایک اور سال ثابت ہوا ہے۔ بلکہ سالانہ بنیاد پر گزشتہ دس برس میں اس سال کے دوران اوسطً تشدد کے سب سے زیادہ یعنی ساڑھے تین سو واقعات پیش آئے۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سال 2017 کے دوران مقبوضہ کشمیرمیں 349 افراد تشدد کا شکار ہوگئے۔ ان میں 56 عام شہری، 215 عسکریت پسند اور 78 حفاظتی اہلکار شامل ہیں۔28 شہری آبادی والے علاقوں میں محصور عسکریت پسندوں کے خلاف شروع کئے گئے فوجی آپریشنز کے دوران اْس وقت ہلاک ہوگئے جب انہوں نے انہیں یعنی عسکریت پسندوں کو مدد پہنچانے کی غرض سے حفاظتی دستوں پر پتھر پھینکے یا مظاہرے کئے اور اس کے جواب میں حفاظتی دستوں نے ان پر گولی چلا دی۔حریت کانفرنس کے شعبہِ انسانی حقوق کی رپورٹ میں حفاظتی دستوں پر انسانی حقوق کی مسلسل پامالیوں کا ارتکاب کرنے کا الزام عائید کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2017 کے دوران بھی نہ صرف عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد حفاظتی دستوں کی فائرنگ یا دوسری کارروائیاں کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہوگئی بلکہ شہریوں کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا ـ نیز تحریکِ مزاہمت کو دبانے کے کئے کرفیو پابندیوں، گرفتاریوں اور انٹرنیٹ کی سہولیات کو روکنے کا سلسلہ جاری رہا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مزاحمتی قیادت کو بار بار گھروں یا پھر جیل خانوں میں نظر بند کردیا گیا اور سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعہ کے اجتماعات کو روکنے کے لئے اس کے صدر دروازے پر پولیس نے آٹھ بار تالا لگا دیا۔کشمیر میں آزادی کی تحریک اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کئی سالوں سے چل رہی ہے ۔اقوام متحدہ نے اپنی قرار دادوں پر عمل کروایا اور نہ بھارت نے اپنی فوج نکالی۔ دنیا میں مظالم ہوتے ہیں مگر کشمیریوں کو پر امن احتجاج پر پیلٹ گن سے فائرنگ کرکے بصارت سے محروم کردیا گیا۔ جس وقت کشمیر میں پیلٹ گن چل رہی تھی دنیا اندھی اور بہری بنی رہی جو افسوس ناک ہے۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ انڈیا کو ظلم سے روکا جاتامگر ایسا نہیں ہوا۔ کشمیریوں کے دلوں سے ہندوستان کا ڈر نکل چکا ہے۔ جو قوم نڈر اور بے خوف ہو وہ ظلم کو روکنے کے بعد ہی چین کا سانس لیتے ہیں۔ جموں کشمیر کی عوام پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ لگاتی ہے۔ کشمیر کا ہر فرد پاکستان سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت فطری ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں جموں کشمیر کے حوالے سے واضح پالیسی ہونی چاہئے۔پاکستانی حکمرانوں کے لیے ضروری ہے وہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی میں تسلسل پیدا کریں۔ کشمیر میں سفید لٹھے کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ ہم اپنے شہدا کو پاکستان کے چاند ستارے والے پرچم میں دفن کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفارتی عملہ کشمیر پر کردار ادا نہیں کررہا۔ پاکستانی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یک زبان ہوجائیں۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سفارت کاروں کومسئلہ کشمیر کے حوالے سے جھنجھوڑ کر جگانا ہو گا۔