تحریر: فرخ شہباز وڑائچ ایک سال بیت گیا ہے۔نیا سال شروع ہو چکا ہے، میں نے کئی بار نئے سال پر لکھنے کی کوشش کی ہے مگر ناکام رہا۔آپ اسی مایوسی کا نام دیں گے مگر سچ پوچھیں تو خواہش کے باوجود بھی میںاس سال کو نہیں بھلا پارہا۔میرے سامنے بہت سے موضوعات ہیں جن میں امید کی کرنیں باقی ہیں۔مگر دسمبر کے دلخراش سانحے کا غم میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔بہت سی باتیں ہیں،بہت سے موضوعات میری طرف دیکھ رہے ہیں مگر میرے دل کی باتیں ایک تخلیق کار نے کس خوبصورتی سے کہہ دیںہیں۔آئیں نوجوان شاعر احمد حماد کی نظم ”یہ جو میرا ہونا ہے” پڑھتے ہیں یہ دل کی بات ہے ،دل سے نکلی ہے اورمجھے یقین ہے یہ دلوں تک پہنچے گی۔
شام ہو گئی احمد… …زندگی کے عرصے کی…ہچکیاں نمائندہ…ہیچ ہے گذشتہ اور…کور چشم آئندہ… دن کا آخری لمحہ…ڈبڈبائی نظروں سے…دیکھتا ہے دُنیا کو…وقت کی کہانی کا…درد کی روانی کا…مختصرحوالہ بھی… سخت روح فرسا ہے…زندگی کی سفّاکی…بے بسی کی بے باکی…اور دل کی نمناکی… کیا عجب فسانہ ہے……
شام ہوگئی احمد… …سوچ اک بھنور میں ہے…گرد کے سفر میں ہے…یہ غبارِہستی بھی…مورتی نہ بن پایا…اور دل کی بستی میں …دھوپ کے مزاروں پر…پھیلتی ہوئی چھایا… یہ جو میرا ہونا ہے…کس کی منفعت سوچے…اس ملال دُنیا میں…مستقل اقامت کے …خواب بنتا رہتا ہے…بے ثبات دُنیا سے…ہست کے بکھیڑوں کے …روز و شب کے پھیروںکے…بین سُنتا رہتا ہے…خواب بُنتا رہتا ہے…
شام ہوگئی احمد… …دن کے سرد لاشے پر…شب مزاج لمحوں نے …رات تان رکھی ہے…تیز دھار کرنوں کی …آن بان رکھی ہے…بے کراں اندھیرے میں…گمشدہ مزاروں پر…دم بدم فنا ہوتی…لوحِ نام کی صورت…سرد شام کی صورت…
شام ہوگئی احمد… …آج دن پہ طاری تھا…خوفناک سناٹا…عشق کے بیوپاری کو…جھیلنا پڑا گھاٹا…آج تیرے شاعر نے…موڑ پھر غلط کاٹا…جس کو صبح سمجھا تھا…شب مزاج نکلاوہ…اور پھر یہی سوچا…کاش اب نہ ایسا ہو…کاش اب سمجھ جائے …چاتروں کی دُنیا میں…سادگی نہیں چلتی …بے رُخی کی دُنیا میں…عاشقی نہیں چلتی …سگ فروغ دُنیا میں …گُربگی نہیں چلتی…جو مغالطے میں ہیں…یہ زمیں ہماری ہے …زندگی ہماری ہے…اُن کو بے ثباتی کا…رنجِ کائناتی کا…کیا سبق پڑھائو گے؟…کس طرح بتائو گے؟…فخرِ منصب و حشمت…علم و طاقت و دولت…تھرتھراتا سایہ ہیں…بے وفا ہیں، مایا ہیں…سانچ تاج بندے کا…نیّتوں کا، دھندے کا…سانچ یوگیوں کا دھن…سانچ مومنوں کا من…
Stars
شام ہوگئی احمد… …دن کے سُرخ عارض پر…زلفِ شب تھرکتی ہے…اور دل کے پربت سے…جوئے غم اُترتی ہے…آنکھ بھرنے لگتی ہے…جن کو میں سمجھتاتھا…علم کے محافظ ہیں…اور اپنی دانش سے …مجھ سے پستہ قامت کو…سر فراز کر دیں گے…ان گنت زمانوں کے…سب زیاں مٹائیں گے…راکھ سے اُٹھائیں گے…لاکھ غم کے ماروں کو…رزم گہ بنائیں گے …آسماں کے تاروں کو…اُن عظیم لوگوں نے…میرا مان توڑا ہے…درسگاہیں روتی ہیں…مدرسے سسکتے ہیں…کیا یہ پست قامت لوگ…منصبوں کی خواہش میں…دن گزارتے ہیں جو …(بھکشوئوں کا جو بھی ہو…اِس سے کیا غرض ان کو)…مجھ سے کم نصیبوں کو…خوش نصیب کر دیں گے؟… بوزنوں کے ہاتھوں میں …ہیں نصیب فیلوں کے…راہبر مِرے مفلوج…اور سفر ہیں میلوں کے…ان کے ہاتھ مستقبل…کم نصیب نسلوں کا…جن کے سیل ِ امکاں سے…دشت خوف کھاتے ہیں…حیف، یہ پروفیسرز…حیف، یہ سیاستداں…حیف، بے یقیں نسلیں……
شام ہوگئی احمد… …خواب سُست رو دریا…عمر تیز رو سورج…کچھ پتا نہیں چلتا…پھول کیسے کھلتے ہیں…ہجر کے سمندر میں …یار کیسے ملتے ہیں…کچھ پتا نہیں چلتا …یاد کرکے اپنوں کو…کون کتنا روتا ہے…آس کی زمینوں میں …درد کیسے بوتا ہے… کچھ پتا نہیں چلتا…زندگی حقیقت میں…دُکھ ہے یا کوئی تحفہ…حسن کوئی دھوکہ ہے…یا، حقیقتِ اُولیٰ…خواب دیکھنے والے …کیوں اُداس رہتے ہیں…لوگ عشق والوںپر…اُنگلیا ں ُٹھاتے ہیں…اور سمجھ نہیں پاتے…دل کے بادشاہوں کو…عاقلوں کی یہ دُنیا…قید خانہ لگتی ہے…
شام ہوگئی احمد… …صبح سے یہی دیکھا…وہ جو ہیچ زادے ہیں…اُن کے خون کی حدّت…اور گرمئیِ خواہش…کالی سرد راتوں میں …روشنی نہیں بنتی …چوبِ نم زدہ کی مثل…بس سلگتی رہتی ہے… دھیرے دھیرے جسم و جاں…راکھ کرتی جاتی ہے…کُشتگانِ سرمایہ…خفتگانِ محرومی…یا تو رات خوشیوں کے…دیکھ دیکھ کر سپنے…جاگتے ہیں، سوتے ہیں…یاپھرآسمانوں پر…جب طلوع ہوتا ہے…روشنی بھرا سُورج…یہ الم فزا پیکر…انقلاب کا سپنا…آنکھ میں لئے ہر دم…شہر شہر جاتے ہیں…اور دِن کے آخر میں…اپنے خواب کے بدلے…ملٹی نیشنل تھپکی…لے کے لوٹ آتے ہیں…مارکس ہو، کہ مزدک ہو…چومسکی ہو یا ہرمن…کوئی بھی نہ کام آیا…اِن کو کون سمجھائے…خواب بیچنے والے…کل کی چاہ میںاپنا…آج بیچنے والے…اپنی کم نصیبی کے…دن بدل نہیں سکتے…تیز رَو زمانے کے…ساتھ چل نہیں سکتے…خواب ، قیمتی موتی…آج،بے بدل مالا…جس نے آج ہمت کی…وقت اُس کے ہاتھوں میں…بخت اُس کے ماتھے پر… …
شام ہوگئی احمد… اب وہ یاد آتا ہے…جس کے پاس ہونے سے…وقت کے گزرنے کا …کچھ پتا نہ چلتا تھا…اب سے پہلے سب شامیں …شہر میں اُترتی تھیں…اُن غزال آنکھوں کی …سُرمگیں اِجازت سے…اور صبح ہوتی تھی…اُس کے روشنی تمثال…گال کی تمازت سے…اب وہ یاد آتا ہے…جس کے دور جانے سے…رات دِن بدلتے ہیں…اور نہ دِل دھڑکتا ہے…زندگی نہیں ہے یہ…مستقل علالت ہے…روگ ہے دل و جاں کا…ہر گھڑی قیامت ہے…آسماں بھی ہے گُم سُم…اور زمیں بھی گونگی ہے…چار سُو ہوئے مدھم…کھو گیا کہیں ہمدم…اور سفرکٹا ہے کم…کتنی دُور جانا ہے…اور کہا ں ٹھکانہ ہے …کچھ خبر نہیں احمد…اُس کی چاہ نگری میں…کھو گیا کہیں احمد…شہر تو وہی ہے پر…اِس میں وہ نہیں احمد…عمر اک انگوٹھی تھی…اور وہ نگیں احمد…جس کو کھوجتے ہو تُم…وہ کہیں نہیں احمد…وہ تو ایک بادل تھا…وہ تو ایک جھونکا تھا…وہ توایک لمحہ تھا…کب کہیں رُکے بادل ؟…کب ہوا کہیں ٹھہری؟…لاکھ روکنا چاہو …وقت بے وفا ماہی…وقت تیز رَومرکب …وقت تند خو دریا…اورخار و خس ہم سب…روکنے کا سوچو تو…خود بھی ساتھ بہ جائو…
شام ہوگئی احمد… …خواب گھر کی کھڑکی سے…وقت کی گلوکارہ…لوریاںسنُاتی ہے…پیار سے بلاتی ہے…اور کہتی جاتی ہے ……
…شام ہوگئی احمد… …زندگی گئی احمد… آئو تھوڑا سستا لو… کس کی راہ تکتے ہو؟…منزلوں کی چاہت کا…جن پہ سحر طاری ہو…ایسے خود مگن راہی…راہ کی محبت میں…مبتلا نہیں ہوتے…کس کی راہ تکتے ہو؟ …خود پسند لوگوں کو…اِس طرح نہیں روتے………………