سال ٢٠٢٠ ء میں پاکستانی قوم نے کیا پایا کیا کھویا پر دوسری باتوں کو چھوڑ کر سیاستدانوں پر بات کریں گے۔ وہ اس لیے کی اگر کسی ملک کی سیاست اس کی اساس کے مطابق نہیں چلتی تو وہ کچھ بھی نہیں پاسکتا۔پاکستان لا الہ الا اللہ کے نعرے پر بانی پاکستان نے دلیل اورمروجہ جمہوری طریقے سے حاصل کیا تھا۔ ہماری قوم نے سال ٢٠٢٠ء بھی اس کی روگردانی میں گزاردیا۔ عمران خان کو چاہیے کہ وقت ضائع کیے بغیر ملک میں مدینہ کے اسلامی طرح کا نظام حکومت قائم کر دیں تو تلافی ہو سکتی ہے۔
سیاست دان تو ایوب خان کے وقت سے دھاندلی دھاندلی کا کھیل ،کھیل رہے ہیں۔ ایوب خان نے الیکشن میں دھاندلی کی، بھٹو نے دھاندلی کی، نواز شریف نے دھاندلی کی،عمران خان نے دھاندلی کی۔ یہ دھاندلی دھاندلی کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔الیکشن میں کروڑ لاگائو۔ جیت جانے پر اقتدار میں آکر کرپشن سے اربوں کمائو۔عوام کے لیے کچھ نہیں کرنہ کرو۔ یہ سلسلہ کب بند ہو گا۔ہمارے پڑوس میں ہمارے ازلی دشمن بھارت نے ا لیکٹرنک ووٹینگ کا سسٹم رائج کر اس مسئلہ کو ختم کر دیا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے ملک کی ضروریات کے تحت متناسب نمایندگی اورالیکٹرنک ووٹنگ کا طریقہ استعمال کر کے اس دھاندلی کے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں۔
عمران خان علامہ شیخ محمد اقبال کے خواب اور قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق پاکستان کو کرپشن فری مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے منشور کے مطابق الیکشن جیت کر آیا۔ اس میںشک نہیں کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے پہلی بار اس مسئلے کو قومی سطح پر اُجاگر کر کے قوم پر احسان کیا۔ جماعت اسلامی خود کرپشن فری ہے۔ اس نے سپریم کورٹ میں ٤٣٢ آف شور کمپنیوں والوں کے خلاف مقدمہ داہر کیا ہوا ہے۔عمران خان نے کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف سخت رویہ رکھ کر اچھا کیا۔ اگر اس وقت کرپٹ لوگوں سے پیسا نہیں نکالا گیا۔ تو آیندہ پھر یہ ملک کوبنانااسٹیٹ بنا کر چھوڑیں گے۔ عمران خان نے اپنے کرپشن فری پاکستان کے پروگرام کو بودے طریقہ سے ڈیل کر کے اپنے مخالوں کو بولنے کا موقعہ فراہم کیا۔ میں این او آر نہیں دوں گا کی رٹ نے ا س کا عوام میں مذاق بنا دیا۔
بھائی صاحب نیب نواز اورزرداری کی رضا مندی سے نیب بنی ۔میگاکرپشن مقدمات پچھلی حکومت کے بنے ہوئے ہیں۔ نیب اس کو ڈیل کر رہی ہے۔ آپ کا بیانیہ یہ ہونا چاہیے کہ کرپشن نیب دیکھ رہی ہے ۔ میں نے آپ پر مقدمات نہیں بنائے ۔ آپ جانیں اور نیب جانیں ۔ آپ کو کرپشن کا حساب کتاب تو ہر حالت میں دینا پڑے گا۔کرپشن فری کیے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا۔امریکا میں جاکر مخالفوں کے متعلق کہنا کہ واپس جا کر ان سے ایئر کنڈیشن کی سہلولت واپس لے لونگا۔ اپوزیشن کے فوج کے خلاف بیان پر بچوں کی طرح ہاتھ منہ پر پھیر کر کہنا کی تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔اس میں عمران خان کا بچپنا اورضدی پن سامنے آتا ہے۔ ملک کوزیر اعظم کی بڑی پوزیشن کے ساتھ ان کی مدبرانہ شخصیت سامنے نہیں آتی۔ ایسی باتوں سے عوام اُکتا گئے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ ایک ایسا ایکٹ پاس کریں جس میں اسلامی نظام عدل کے مطابق قاضی کورٹ بنائی جائیں۔جو کرپشن کے کیسز تیزی سے سنیں۔ قاضی کورٹ جس پر کرپشن کا الزام لگائیں، وہ شخص چھ ماہ میں اپنی آمدنی سے زیادہ اثاثوں کا ثبوت پیش کرے۔ ثبوت نہ پیش کرنے پر اس کے اثاثے بحق غریب عوام کے ضبط کر لیے جائیں۔
انگریزی قانون کے مطابق دیر لگتی۔ جیسے ابھی تک کوئی بڑی رقم واپس خزانے میں داخل نہیں ہو سکی۔ آپ فی البدیہ تقریر کرتے ہیں۔ اچھی بات ہے جو آپ کے دل میں ہوتا ہے وہ سامنے آ جاتا ہے۔ مگر ملک کے وزیر اعظم کے پوسٹ پر ہونے والی شخصیت کی زبان پھسل جائے تو مخالف مذاق اُڑاتے ہیں، جیسے آپ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آپ جلسوں میں تو ایسا کر سکتے ہیں مگر ملکی پالیسی معاملات پر لکھی ہوئی تقریر کرناچاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ جانے والے حکومت نے تین سوارب(٣٠٠) کا قرضہ چھوڑا۔ اس کی سودی قسطیں ادا کرنے کے لیے آپ کو چین، قطر اور سعودی سے مدد مانگی پڑی۔مگر سارے ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنا غلط فیصلہ ہے۔ آئی ایم ایف ایک سودی ادارہ ہے۔ اس کا کام صرف اپنے قرضوں کی رقم واپس وصول کرنے کا کام ہوتا ہے۔ یہ غریب ملکوں میں ایسے قانون بناتے ہیں جس سے مہنگائی بڑھتیہے۔ آئی ایم ایف نے ٹیکس لگوا کرمہنگائی کا طوفان پیدا کر دیا۔ اس سے عوام آپ کے خلاف ہو گئے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ آئی ٰ ایم ایف کو ہٹا کر اپنے ملک میںموجود اور اسلامی ملکوں سے اقتصادی ماہرین کی ایک ٹیم بنا کر ملک کے ٹیکس کے نظام کو عوام کی امنگوں کے مطابق بنائیں۔ ٹیکس کا بوجھ غریب عوام سے ہٹا کر امیروں پر ڈالیں۔ غیر ترقیاتی اسکیمں ختم کر کے ترقیاتی اسکیمیں شروع کرائیں۔ نیب کا نظام صاف شفاف ہونا چاہیے۔ آپ کے ارد گرد کرپٹ لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔چینی،آٹا ، بجلی، پٹرول کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق عمل شروع ہونا چاہیے۔ فوج اورعدلیہ خلاف بیانات پر حد سے بڑھ جانے والوں کے خلاف ملکی قانون کے مطابق مقدمات قائم ہونے چائییں۔ تاکہ اس ملک دشمن اقدامات کو ختم کیا جا سکے۔
اپوزیشن کو بھی ایک حد سے نہ بڑھنا چاہیے۔ تاحیات نا اہل اور نیب عدلت سے کرپشن میں سزا یافتہ نواز شریف کے فوج کے سربراہ کا نام، ملک کی مایا ناز خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کا نام اور سی پیک کے انچار ج کا نام لے کر اپنے کرپشن کو چھپانے پر چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول زرداری کے مطالبہ کہ اس کا ثبوت پیش کریں پر نواز شریف کو سمجھ جانا چاہیے تھا کہ اُس نے پاکستان کے خلاف بہت بڑا الزام لگایا ہے۔ مولانافضل الرحمان صاحب، جب سے خیبر پختون خواہ میں عمران خان نے شکست دی، عمران خان پر یہودی ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ اب پھر جو قومی اسمبلی کی سیٹ ہار گئے تو آگ بگولہ ہو کر قومی اسمبلی نہ چلنے دینے کی دھکیاں دیتے رہے ہیں۔ وہ بھی کھل کر فوج کے خلاف بول رہے ہیں ۔ جو کسی قیمت پر عوام کو منظور نہیں۔ ساری دنیا کے ملکوں میںاسٹبلشمنٹ کا کردار ہوتا ہے۔ ملک کی حفاظت کا کام اسٹبلشمنٹ کا ہوتاہے۔سیاسیدان صرف پالیسیاں مناتے ہیں۔
اسٹبلشمنٹ اپنے جانوں کے نذرانے پیش کر کے ملک کی حفاظت کرتی ہے۔ ہمارے دشمن اس لیے ہماری اسٹبلشمنٹ کے خلاف ہو گئی کہ ان کی پاکستان میں برپاہ کردہ جنگ کو پاک فوج نے شکست فاش دے کر ملک میں امن قائم کیا۔ اپوازیش کو پاک فوج مخالف مہم سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عمران خان حکومت کو ایک حد سے بڑھنے والوں کے خلاف پاکستان کے آئین کے مطابق مقدمات قائم کر کے قرار واقعی ہی سزا دلوانی چاہیے ۔قوم کبھی بھی بھارت کے بیانیے کو تقویت پہنچانے والوں کا معاف نہیں کرے گی۔ کیا ہمارے سیکوٹی کے نوجوانوں کے کٹے سروں سے دہشت گردوں نے فٹ بال نہیں کھیلے؟۔ کیا اب بھی بھی ہمارے سیکورٹی کے نوجوان شہید نہیں ہو رہے۔ بس سب بہت ہو گیا۔ ملک کے کسی بھی فرد کا بیانیہ اگر ملک دشمن بھارت کے بیانیے کو تقویت پہنچاناے والا ہو گا اسے کبھی بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے سیاستدانوں نے ٢٠٢٠ء میں تو کچھ نہیں پایا۔ بلکہ کچھ کھویا ہی ہے۔