ہر سال چینی کا بحران کیوں اور کیسے

Sugar

Sugar

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
ہمارا ملک صنعتکار حکمران کے چنگل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے جو اپنے سودی سرمائے کے زور پر مقتدر ہو کرملک کی ساری معیشت پر قابض ہونے کے لیے تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں کہ انھیں ان کی حرام خوری ،سود خوری ناجائز منافع کمانے کی عادت بد ہر لمحہ مجبور کرتی رہتی ہے کہ ساری اشیائے خوردنی کی ترسیل اور درآمد برآمد بھی ان کے کنٹرول میں آجائے صنعتکار حکمران پھر اس کے لیے عزیز واقارب ،قریبی دوست احباب حتیٰ کہ اپنے بال بچوں کو بھی ملا کر ایک صنعتی ایمپائر قائم کر لیتا ہے تاکہ مختلف کاروباروں کی مختلف ناموں سے ملکیت شو کروائی جاسکے اس کے لیے صنعتکار حکمران مختلف اہم اداروں کی نجکاری کا ڈرامہ رچا کر انہیں بھی اپنے حواریوں کو فروخت کرتا رہتا ہے۔

وزراء چونکہ سبھی اس کے تابعدار ملازموں کی طرح کے ہوتے ہیں اس لیے وہ بین الوزارتی کمیٹیوں کے اجلاس بلا کر ملک کی قیمتی اجناس کی درآمد و برآمد کے ڈرامے کرتا رہتا ہے ہر سال چینی کا خود ساختہ بحران پاکستانیوں کو سانپ کی طرح ڈستا رہتا ہے ۔چینی کے کارخانے سبھی مقتدر افراد ،ان کے حواریوں یا پھر زرداری اور گجراتی چوہدریوں کے ہیں ۔جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ شوگر ملیں لگا لیتا ہے۔پھر جو ایک آدھ پرائیویٹ سیکٹر میں ہوتی ہے اس پر پریشر ڈال کر اونے پونے داموں اس کا چینی کا کارخانہ چھین لیتے ہیںاس طرح مال اینٹھنے میں سبھی اکٹھے ہوتے ہیںنام نہاد اپوزیشنی اختلاف بھی روایتی ہی ہوتا ہے۔امسال پھرمزیدچھ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کی جارہی ہے اگر چینی زیادہ ہے تو خدارا ایسے غرباء میں تقسیم کردیویں جنہوں نے آج تک اس کو چکھا تک بھی نہ ہے ساری زندگی گڑ یا شکر سے چائے شربت وغیرہ پیتے رہے ہیںیہاںسے برآمد کے بعد چینی کی کمی کا رونا رو کراس کی ذخیرہ اندوزی ہو گی۔اسے مہنگی قیمتوں پر سود خور صنعتکار و زخیرہ اندوز منڈی میں فروخت کریں گے آج تک تو چینی باہر بھیجنے کے لیے بھی سبسڈی دی جاتی تھی اسطرح صنعتکاروں کو بھی سرکاری خزانوں پر ہاتھ صاف کرنے کی چھوٹ ملتی رہی ہے وزیر تجارت و اصل مقتدر حضرات برآمد پر اپنا مخصوص حصہ وصول کرتے ہیں با اثر شوگر ملز مالکان تو ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ چینی برآمد ہو تاکہ سبسڈی کی رقوم بھی حکومت سے اینٹھ لی جاویں وزارت خزانہ کی نگرانی میں قائم اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس بھی روایتی ہوتے ہیں۔

اصل ویلیو تو مال کی ہے جو ہر کام کروانے میں مدد گار ہوتا ہے اس کے ریل پیل سے ہمہ قسم کاغذات پر منظوری اور اجازت نامے جاری ہوتے رہتے ہیں ۔مگر قوم کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی سرمایہ داری نظام کا یہی کمال ہے کہ عوام کی جیب بھی کٹ جائے مگر انہیں پتہ بھی نہ چلے پہلے بھی شوگر مافیا 4لاکھ 25 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کرچکا ہے سٹاک کردہ چینی کی برآمد کے بعد چینی کی کمی کا رونا دھونا شروع ہوجائے گاپھر بین الوزارتی واقتصادی رابطہ کمیٹی اس کی در آمد کے لیے پرمٹ جاری کردے گی اس طرح مزید عوام تک مہنگی چینی پہنچے گی۔اس کو سرمایہ کا سرکل (Capital Circle) کہتے ہیں ۔جو کہ اوپر ہی اوپر عوام کو مطلع کیے بغیر چلتا رہتا ہے چینی کے ہرسال بحران کا اصل حل تو یہ ہے کہ شوگر ملوں کا کنٹرول مزدوروں کی منتخب یونینز کے حوالے کردیا جائے تاکہ زیادہ محنت سے پیداوار بھی بڑھے ۔کسانوں کو بروقت گنا کی قیمت کی ادائیگی ہوگی مزدوروں کو منافع میں دس فیصد حصہ بھی دیا جائے کسانوں کے رت جگے سے پیدا کیا گنا اونے پونے داموں ملوں والے چھین لیتے ہیں۔حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حسیب وقاص شوگر ملز ننکانہ سے مظفر گڑھ دوسال قبل شفٹ ہوچکی مگر مالکان نے بااثر ہونے کی وجہ سے آج تک گنے کے مالکان کو کوئی ادائیگی نہیں کی مظفر گڑھ میں بھی ابھی کروڑوں کی ادائیگیاں باقی ہیں عبداللہ شوگر ملز دیپالپور نے کاشتکاروں کے کروڑوں دبا رکھے ہیںسندھ میں چونکہ سبھی ملیں زرداری کی ہیں اس لیے وہاں لاکھ چیخ و پکار کریں کوئی کاشتکاروں کی سنتا ہی نہیں۔

فروختگی کی رقم کئی سال انتظار کے بعد ملتی ہے اور عوام کے کروڑوں روپے تو ملوں نے دبائے ہوئے ہیں جس کے لیے کوئی وزارتی کمیٹی نہیں بنتی تاکہ صنعتکار برادری کو ادائیگی نہ کرنا پڑے ایسا صنعتکار حکمران کبھی نہیں کریں گے کہ اس میں ان کا اپنا مفاد بھی مجروح ہوتا ہے در اصل تو عوام ہی الو کی د م کی طرح ٹیڑھے ہیں صنعتکاروں کی پیسے کی چمک دیکھ کر انھیں منتخب کرتے ہیں پھر پورے پانچ سال رونا دھونا جاری رہتا ہے اور ہر چیز کی انھیں خریدنے کے وقت دوگنا چوگنا قیمتیں ادا کرنا پڑتی ہیں الیکشن کمیشن امیدواروں کے پیسے خرچ کرنے پر پابندی عائد کرکے پبلسٹی و جلسے وغیرہ کروانے کا خرچہ حکومت کے ذمہ ہو تبھی باشعور ایماندار نچلے اور درمیانے طبقوں کے افراد منتخب ہو کر جاگیرداروں وڈیروں ،نودولتیوں ،سود خور صنعتکاروں کو شکست فاش دے سکیں گے۔

آجکل تو سبھی بڑی پارٹیوں میں مخصوص جاگیردار کرپٹ افراد کی “آنیاں جانیاں ” دیکھنے والی ہیں حتیٰ کہ نئی قیادت کے عمرانی نعرے بھی ماند پرگئے ہیںانہوں نے بھی دیگر پارٹیوں سے کر پشن کے غلیظ حمام میں نہائے ہوئے افراد کو اپنے ہاں پناہ دینا شروع کردی ہے سارا آوے کا آوا ہی بگاڑ کا شکار ہے جس کا واحد حل یہی ہے کہ گندے غلیظ محلوں گلیوں دیہاتوں گوٹھوں سے غربت کے مارے اور خود کشیاں کرتے پسے ہوئے نچلے طبقات کے لوگ اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے اور سیدی مرشدی یا نبی یا نبی کا ورد کرتے ہوئے تحریک کی صورت میں نکلیں اور پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ کرانقلاب برپا کردیںتاکہ ملک اسلامی فلاحی مملکت بن جائے۔وگرنہ من ُتراملاں بگوئم تو مرا حاجی بگو کی طرح سارے جغادری سیاستدان منہ پر غازہ مل کر کسی اور پارٹی میں گھس کر دوبارہ ہماری گردنوں پر سوار ہو کر ظلم کا رویہ اپنائے رکھیں گے ملکی خزانے بھی لٹتے اور بیرون ممالک میں دفن ہوتے رہیں گے چینی ہی نہیں گندم چاول دالوں کے بحران در بحران جنم لیکر عوام کو یہ سبھی اشیاء مہنگے داموں خریدنی پڑیں گی اور سود خوروں کے موٹے حرام پیٹوں میں سرمایہ کے سانپ اوربچھو بکثرت جمع ہو تے رہیں گے غریب غریب ترہوتا رہے گاتاکہ ظالم نظام کے خلاف آواز تک کی بھی طاقت سے محروم ہو جائے۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری