یہ اعلان اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے نومنتخب وزیراعظم جناب عمران خان نے اپنے پہلے قوم سے خطاب کے دوران کیا ہے کہ ایک سال میں تمام سول یعنی دیوانی مقدمات کا فیصلہ ہو گا کیونکہ سائلین ہمیشہ سے انصاف کیلئے دربدر ہوتے رہے ہیں اورہمیشہ ارباب اختیار انصاف کی فراہمی کے معاملے پر ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے رہے ہیں مگر اب وزیراعظم پاکستان کے اعلان سے ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے کیونکہ گذشتہ دور میں انہوں نے واحد صوبے میں قائم اپنی خیبر پختونخواہ حکومت کے دوران 16 جنوری 2018 کو ضابطہ دیوانی میں ترمیم کی اور سول مقدمہ کا دورانیہ ایک سال کرکے فیصلہ کرنے کا نظام متعارف کروایا جس کے ثمرات سائلین تک پہنچے تو وزیراعظم پاکستان کی جماعت کو صوبے میں بھاری اکثریت سمیت وفاقی اور صوبہ پنجاب میں حکومت بنانے کا موقع ملا ہے جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی تاریخ اِس کے برعکس رہی ہے کیونکہ وہاںہمیشہ ”تبدیلی “ آتی تھی ۔
طویل دورانیہ دیوانی مقدمہ بازی کی وجہ سے سائلین کا عدلیہ سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے جس کی خاص وجہ انصاف کی عدم فراہمی ہے اور موجودہ نظام میں ایک دیوانی مقدمہ کو پایا تکمیل تک پہنچانے یا اُس کا فیصلہ حاصل کرنے کیلئے سالہاں سال یانسل در نسل انتظار کرنا پڑتا ہے جس کی خاص وجہ انگریز دور کا ”مجموعہ ضابطہ دیوانی 1908“ ہے ۔ اِس مجموعہ میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی ترامیم کی گئی ہیں مگرایسی کوئی ترمیم نہیں کی گئی جس سے سست ترین دیوانی مقدمہ بازی تیز ترین ہوجائے تاکہ جلد فیصلے ہوسکیں ۔ویسے بھی ایک سال کا عرصہ دیوانی مقدمہ کیلئے کافی ہے اِس کے علاوہ فوجداری سمیت دیگر مقدمات کو بھی ایک سال سے زیادہ نہیں چلنا چاہیے اِسی وجہ سے موجودہ نظام میںایسی اصلاحات ناگزیرہوچکی ہیں ۔
تقسیم جائیداد،جعلسازی و فراڈ ،منسوخی دستاویز، اراضی یا گھرپر ناجائز قبضہ وغیرہ وغیرہ ایسے دیوانی نوعیت کے مقدمات ہیں جن کی تعداد کافی زیادہ ہے اور ایسے مقدمات سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے اپنے مقدمات کا فیصلہ نہیںہونے دیتے۔ وہ ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ اپنا جائز حق مانگنے والا بھی اِس عدالتی نظام سے دل برداشتہ ہوکر مقدمہ کی پیروی چھوڑ نے پر مجبور ہوجاتا ہے یا پھر طاقتور افراد اپنی طاقت کا استعمال کرکے اُسے موت کی نیند ہی سلادیتے ہیں ۔
ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ دیوانی مقدمہ بازی کی طوالت کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں رہا کیونکہ جج صاحبان کے خیال میں اِ س کی وجہ وکلاءصاحبا ن ہیں جبکہ وکلاءصاحبا ن کے نزدیک اِس معاملے کی اصل وجہ عدالتی نظام اور جج صاحبان خودہیں مگر میرے خیال میں آج تک اِس نظام میں یہ تمام ہی وجوہات رہی ہیں لیکن اِس مسئلے کے حل کیلئے کبھی کسی نے کوئی اقدام نہیں کیا بس ڈالی توڈالی ایک دوسرے پر ذمہ داری ۔ویسے اِس عدالتی نظام کے ٹھیک ہونے میں ہی سب کا فائدہ ہے جس سے سائلین کو انصاف کی فراہمی ، وکلاءکو روزگار اور جج صاحبان کو عزت سمیت عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوگا اِس طرح موجود نظام سے تنگ سائلین اعتماد سے اپنے مسائل کے حل اور انصاف کیلئے عدلیہ کا رخ بلاخوف کریں گے ۔
اعلانات کے لحاظ سے وزیراعظم پاکستان نے اپنے پہلے قوم سے خطاب میں بہت سے اہم اعلانات کیے ہیںمگر میرے نزدیک دو اعلانات بہت اہم کے حامل ہیں جن میںایک ”پورے ملک میںپولیس کے نظام کو صوبہ خیبر پختونخواہ کی طرح تبدیل کرنااوردوسرا ”بے روزگار نوجوان کیلئے ایک کروڑ نوکریاں“ شامل ہیں مگر مخالفین اب بھی اُن کے خطاب میں خامیاں تلاش کررہے ہیں کہ انہوں نے فلاں اعلان کیوں نہیں کیا اور فلاں اعلان کیوں کیا مگر میں اُن سب سے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ وزیراعظم پاکستان نے پاکستانی نظام حکومت کو ”ریاست ِمدینہ ﷺ “کی طرز پر چلانے کا اعلان کیا ہے تو کیا اِس کے بعد بھی کوئی بات باقی رہتی ہے ؟
حالیہ الیکشن سے قبل وزیراعظم پاکستان نے اپنی جماعت کی حکومت بننے کی صورت میں سو دن کا ایک پروگرام دیا تھا جس میںکچھ نئی باتوں کا اضافہ انہوںنے اپنے پہلے قوم سے خطاب میںکیا ہے ۔جناب عمران خان ایک عزم انسان ہیںکیونکہ ہم انہیں کپتان کی حیثیت سے کرکٹ کی میدانوں میں دیکھتے رہے ہیں۔ وہ با ئیس سال کی طویل جدوجہد کے بعدتیس سالوں سے جاری دو جماعتوں کی باریاں ووٹ کی طاقت سے ختم کرواکرپہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں اِن کی سوچ مثبت اور خیالات انقلابی ہیں اگر وزیراعظم پاکستان اپنے طے شدہ ایجنڈے پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہوگئے تو کوئی وجہ نہیں ہوگی کہ ہماری عوام باقی سیاست دانوں کو بھول جائے ۔اللہ پاک وزیراعظم پاکستان کے اعلان کے مطابق ملک بھرمیں جلد از جلد تمام سائلین کیلئے سستے اور فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور انہیں مثبت عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین