ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ حالیہ سالوں میں اقتصادیات اور دہشت گردی سمیت ترکی کو ہدف بنانے والا کوئی بھی حملہ محض اتفاق نہیں تھا۔
صدر ایردوان نے دولما باہچے صدارتی دفتر میں بین الاقوامی ڈیموکریٹ یونین UIDکے چئیرمین کھیوک سال کُش اور ان کے وفد سے ملاقات کی۔
ملاقات میں انہوں نے کہا ہے کہ حالیہ ایک سال سے انسانیت کورونا وباءکے خلاف جدوجہد میں مصروف ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا کے متعدد ممالک وباء کے خلاف تیار حالت میں نہیں تھے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ترکی نے اس دورمیں اپنی ذمہ داریوں کو نہایت خوش اسلوبی سے پورا کیا ہے۔ دنیا بھر میں انسان عدم توجہ کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے، صحت کے عملےتک کو ماسک نہیں ملے اور اولڈ ہاوسز سے دل ہِلا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملتے رہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ترکی میں ایسا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ سرمائے کے حوالے سے دنیا کے سرفہرست ممالک ایسی حالت میں آ گئے کہ ان کے پاس لاشیں دفن کرنے کے لئے قبروں کی جگہ تک باقی نہیں رہی۔
صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ہم نے صرف ملکی حدود میں رہنے والے شہریوں پر ہی توجہ نہیں دی بلکہ بیرونی ممالک میں مقیم ترک شہریوں کو بھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑا۔ ہم نے جمہوریہ ترکی کی تاریخ کے سب سے بڑے شہریوں کے انخلاء پروگرام کے تحت 141 ممالک سے ایک لاکھ سے زائد ترک شہریوں کونکالا اور ان کے کنبوں تک پہنچایا۔ہم نے ایک دفعہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ترکی اپنی تاریخ، تہذیبی ورثے، انسانی اقدار اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے اعتبار سے ایک بڑا ملک ہے۔
صدر ایردوان نے کہا ہے کہ مت بھولیں کہ حالیہ سالوں میں اقتصادیات اور دہشت گردی سمیت ہمارے ملک کو ہدف بنانے والے حملوں میں سے کوئی بھی محض اتفاق نہیں تھا۔ لیبیا، شام، بحیرہ ایجئین، مشرقی بحیرہ روم اور سب سے آخر میں پہاڑی قارا باغ میں ترکی کو جھکانے میں ناکامی کے بعد گھٹیا طریقوں اور غیر حقیقی دعووں اور الزامات کے ساتھ ترکی کو جال میں پھنسانے کی کوششوں کی جا رہی ہے۔یورپ میں کورونا وائرس وباء کے ساتھ ساتھ شدت سے پھیلتی ہوئی ترک اور مسلمان دشمنی کی اسباب میں سے ایک سبب ترکی کا ان کے جال میں نہ پھنسنا بھی ہے۔ تقریباً تقریباً ہر روز بیرونی ممالک سے ہمیں کسی نہ کسی ایسے شہری کی خبر ضرور موصول ہوتی ہے کہ جو صرف ترک اور مسلمان ہونے کی وجہ سے حملے کا نشانہ بنا ہو۔نیونازی دہشت گردی سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر نسلی و دینی شناخت کے حامل فرقے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔خاص طور پر مساجد، کاروباری جگہوں، سوسائٹیوں اور اسکولوں کے خلاف قدامات نہایت بڑھے پیمانے تک پہنچ چکے ہیں۔
صدرایردوان نے کہا ہے کہ سویڈن میں قرآن کو جلایا جانا، ناروے میں قرآن کو شہید کیا جانا اورآزادی صحافت کے نام پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کارٹونوں کی اشاعت کیا جاناہمارے مقدسات پر حملوں کی مثالوں میں سے چند ایک ہیں۔ لیکن مغرب روز بروز پھیلتی ہوئی اس زہریلی بیل کے خلاف کوئی تدبیر اختیار کرنے کے مقابل مزاحمت کر رہا ہے۔ مسلمانوں کے مقدسات پر حملوں کو آزادی صحافت کا نام دے کر دیکھا ان دیکھا کیا جا رہا ہے۔یہی نہیں بلکہ یورپی اسلام، فرانس کا اسلام، آسٹریا کا اسلام جیسے منصوبوں کے ساتھ مسلمانوں پر دوہرا دباو ڈالا جا رہا ہے۔انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کے بھیس میں پیش کئے جانے والے ان منصوبوں کا مقصد یورپ میں مقیم مسلمانوں کا ایک کے اصل وطن اور امت مسلمہ کے ساتھ رابطے کو منقطع کرنا ہے۔ خواہ کیسے ہی مختلف اور جاذب عنوانات کیوں نہ دئیے جائیں یہ ایک اصلیت کشی کا منصوبہ ہے۔ انتہائی باریک بین سیاست کے ساتھ تیار کئے گئے اور بتدریج پھیلتے ہوئے اس منصوبے کے خلاف باہم متحدہو کر جدوجہد کرنا شرط ہے۔اور اس جدوجہد میں ہم اپنے مخاطبین کے سامنے اپنے موقف کا مضبوط دفاع کر کے ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔