تحریر : ایم سرور صدیقی لو ایک اور سال تمام ہوا۔۔عہد ِ رفتہ کا ایک اور باب رقم۔معلوم نہیں ہماری عمرکا ایک سال اور کم ہوگیا یا زیادہ بہرحال2015ء کا سال اپنے دامن میں انتہائی تلخ یادیں لئے رخصت ہوا۔۔ جو شاید ہم بھلائے بھی نہ بھول پائیں۔۔2015ء میں کئی اہم واقعات رونماہوئے ملک سیاسی تاریخ میں ایک دھماکہ یہ ہوا کہMQMکے قائد الطاف حسین سمیت کئی افرادکو ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں باقاعدہ ملزم قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔۔ گذرے سا ل کا ایک اور اہم واقعہ بلدیاتی انتخابات کا انعقادہے حکمرانوںنے اعلیٰ عدلیہ کے دبائو پر بنیادی جمہوریت تو بحال کردی ہے لیکن تادم ِ تحریر اسلام آباد کے علاوہ پنجاب بھر میں عوامی نمائندوں کاحلف ہو ا نہ نوٹیفکیشن ۔۔ پھرسوال پیدا یہ ہوتاہے حکمران اگر نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم چاہتے ہی نہیں تو پھر بلدیاتی انتخابات کروانے کا ڈھونگ کیوں رچایا گیا؟۔۔2015ء کا ایک اور اہم واقعہ بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی کا اچانک دورہ ٔ لاہورہے جس پر ابھی تک چہ مہ گوئیاں ہورہی ہیں کہ اس کے پس پردہ کیا محرکات ہیں ؟ جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔۔۔ سال کے آخری دنوں میں بلاول بھٹو زرداری کے پروٹوکول پر ہسپتال میں علاج کی غرض سے آنے والی 10 ماہ کی ننھی جان بسمہ کی والد کی گودمیں تڑپ تڑپ کر ہلاکت نے ہر درد ٍ دل رکھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیایہ واقعہ پروٹوکول کے عادی اور انسانیت سے عاری حکمرانوں کے منہ پر ایک روزدار طمانچہ ہے۔۔۔
پانچواں اہم ترین واقعہ تحریک ِ انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کی لودھراںکے ضمنی الیکشن میںایک لاکھ39ہزار719ووٹ لے کر تاریخ ساز فتح اور عبدالعلیم خان کی لاہور سے 2400ووٹوں کے مارجن سے شکست ہے۔۔۔ اس سال کا ایک اور اہم ایشو رینجرزکے اختیارات پر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان پھڈاہے اب تو محاذ آرائی عروج پرہے سندھ اسمبلی کی طرف سے رینجرز کے اختیارات محدود کرنے پر وفاق کے ایکشن کو سابقہ صدر آصف علی زرداری، وزیر ِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ نے اسے سندھ پر حملہ قراردیاہے ۔۔ اور تو اور وزیر ِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے میاں نوازشریف کی کراچی آمدپر کسی تقریب میں شرکت نہ کرکے عملاً ناراضگی کااظہار کیاہے شنیدہے کہ یہ اس لئے کیا جارہاہے کہ زرداری کے کرپٹ دوستو ںکو قانون کے شکنجے سے بچایا جا سکے۔ اس سال کی ایک اہم خبر سپر ماڈل ایان علی کی کرنسی اسملنگ کیس میں گرفتاری اور رہائی ہے کہا جاتاہے جس کے ڈانڈے بھی سابقہ صدر آصف علی زرداری سے جا ملتے ہیں 2014ء شروع کئے جانے والا اپریشن ضرب ِ عضب انتہائی کامیابی سے جاری ہے
دہشت گرد اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہیں اب تلک کئی دہشت گردوں کو پھانسی دی جا چکی ہے اور سینکڑوں سزائے موت کے مجرم اس کی زدمیں آنے والے ہیں ۔۔۔شاید ایک بات ہم بھول گئے میاں نواز شریف نے اپنے پچھلے دور ِ حکومت میں بھی دہشت گردی کے مقدمات چلاے کیلئے ملٹری کورٹ بنانے کااعلان کیا تھا جس پر کئی سیاستدانوں اور جماعتوںنے شدید تحفظات کااظہارکیا سابق صدر آصف علی زرداری نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہیں اس کی زدمیں آکر میں اور نواز شریف جیل نہ چلے جائیں۔۔2015ء میں کئی اہم شخصیات جنرل حمیدگل، جسٹس جاویداقبال، مخدوم امین فہیم، رانا بھگوان داس ناول نگار اشتیاق احمد اور سبین محمود انتقال کرگئے اس سال کی سب سے اہم ترین خبر یہ ہے کہ عمران خان نے خیبر پی کے میں سرکاری پروٹوکول ختم کرنے کااعلان کردیاہے صوبہ بھر میں اب کسی بھی شخصیت کے لئے سڑکیں بندنہیں ہوں گی ایک او ربات گذرتے سال میں متعددبارپے درپے زلزلے آچکے ہیں یہ قدرت کی طرف سے ہمارے لئے وارننگ ہے پرانا سال گذرگیا
Inflation
لیکن قوم کو مہنگائی ،دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ سے نجات نہیں ملی اب تو نئے سال میں سوئی گیس کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کیا جا چکاہے جس سے عام آدمی کے لئے کشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ان تمام واقعات کے باوجود ہمیں نئے سال سے بہت سے امیدیں وابستہ ہیںکسی سے امیدیں وابستہ کرنا اچھی بات ہے اسے خوش فہمی بھی کہا جا سکتاہے ہم نے پہل بھی کہاہے کہ امید گھپ ٹوپ اندھیرے میں چمکتے ہوئے جگنوئوںکی مانند ہوتی ہیں پاکستان بنانے کا خواب بھی ایک امید تھی جو اللہ کے فضل سے یوری ہوئی اب اس وطن کو پر امن ، خوشحال اور ہر لحاظ سے مضبوط اور مستحکم بنانے کا خواب ہماری جاگتی آنکھیں اکثر دیکھتی رہتی ہیں اللہ کرے یہ خواب بھی شرمندہ ٔ تعبیرہو۔۔۔۔ایک خواب ہے اس ملک سے عوام کی محرومیاں دو رہوں اس مملکت ِ خدادادکو کوئی ایسا حکمران مل جائے جو قوم کی محرومیاں اور مایوسیاں دور کرنے کیلئے اقدامات کرے یہاںکی اشرافیہ اپنے ہر ہم وطن کو اپنے جیسا سمجھے کیونکہ یہ بات طے ہے پاکستان کو جتنا نقصان یہاں بسنے والی اشرافیہ نے پہنچایاہے کسی دشمن نے نہیں پہنچایا ہوگا پاکستان کے تمام مسائل اور عوام کی محرومیوںکے یہی ذمہ دارہیں یہ ان لوگوںنے اس ملک کو کبھی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سے زیادہ اہمیت نہیں دی ۔۔۔اب نیا سال طلوع ہوا ہے تو دل میں پھر حسرتیں امڈ آئی ہیں۔۔۔ امیدیں جاگ اٹھی ہیں۔۔
ترقی و خوشحالی کی خواہشات انگڑائیاں لے رہی ہیں ۔اللہ خیر کرے ہمیں اس بات کا بھی قلق ہے کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں کہیںفرقہ واریت،لسانی جھگڑے معمول بن گئے ہیں کہیں جمہوریت۔۔۔کہیں خلافت اور کہیں اسلام کے نام پراپنے ہم مذہب بھائیوںکے گلے کاٹے جارہے ہیں ۔۔۔ کہیںمعاشی استحصال ہورہاہے یاان کے حقوق غصب کئے جاتے ہیں خودکش حملے، بم دھماکے،ٹارگٹ کلنگ ایک الگ مسائل ہیں جنہوںنے پوری قوم کا جینا حرام کررکھاہے ا س میں کوئی شک نہیں پاکستان کو اللہ نے بے شمار وسائل سے نوازاہے لیکن یہ دولت فلاح ِ انسانیت کیلئے خرچ ہونی چاہیے ۔۔۔عوام کی حالت بہتربنانے پر صرف کی جانی چاہیے۔۔غربت کے خاتمہ کیلئے منصوبہ بندی کیلئے ٹھوس اقدامات متقاضی ہیں جرم، ناانصافی اور سماجی برائیوں کے قلع قمع کے لئے کام کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے ۔۔۔ پو ری دنیا میںشاید سب سے زیادہ پروٹوکول پاکستانی حکمرانوںکاہے جن کی آمدورفت کے موقعہ پر گھنٹوں ٹریفک جام رکھنا عام سی بات ہے اس دوران ایمبو لینسوںمیںمریضوںکی موت واقع ہو جائے،طالبعلم کو تعلیمی داروں اور ملازمین کودفاتر سے دیر بھی ہو جائے تو حکمرانوںکی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔۔ ۔ہماری اشرافیہ نے ان کے مقدرمیں محرومیاں اور مایوسیاں لکھ دی ہیں اور جب مایوسیاں حدسے زیادہ بڑھ جائیں انسان کو اپنی ذات سے بھی محبت ختم ہو جاتی ہے ۔۔۔ اس ملک میں امیر امیر تر ۔۔غریب غریب ترین ہوتا جارہا ہے دعا ہے کہ یہ نظام بھی بدلنا چاہیے ۔۔ہم پاکستانی ایک ملک میں رہنے کے باوجودمگر آج بھی سندھی ،بلوچی،پٹھان اور پنجابی کی تفریق سے باہر نہیں نکلے۔۔۔
پاکستان کا آج جو بھی حال ہے اس کیلئے حکمران۔اشرافیہ ۔۔قوم پرست۔۔کرپٹ سب ذمہ دارہیں ہمیں اس خول سے باہر نکلناہوگا۔۔اب نیا سال طلوع ہوا ہے تو دل میں پھر حسرتیں امڈ آئی ہیں۔۔۔ امیدیں جاگ اٹھی ہیں۔۔ ترقی و خوشحالی کی خواہشات انگڑائیاں لے رہی ہیں خداکرے جو مسائل ملک وقوم کو گذشتہ سالوںمیں درپیش تھے وہ سال ِ نومیں نہ ہوں اورہمارے ہونٹوںپر یہ دعا مچلتی رہے کوئی”ضبط” دے نہ”جلال” دے مجھے صرف اتنا ”کمال” دے میں ہر ایک کی ”صدا” بنوں کہ”زمانہ” میری”مثال” دے تیری ”رحمتوں” کا ”نزول” ہو میری ”محنتوں” کا ”صلہ” ملے مجھے”مال وزر” کی ”ہوس” نہ ہو مجھے بس تو ”رزقِ حلال” دے میرے”ذہن” میں تیری ”فکر” ہو میری ”سانس ” میں تیرا ”ذکر” ہو تیرا ”خوف” میری ”نجات” ہو سبھی”خوف” دل سے نکال دے