نیا سال نئی امیدیں

Man Sunrise Thinking

Man Sunrise Thinking

تحریر : سلطان حسین
2015کے آخری مہینے کے آخر دن کا سورج بھی اس دنیا میں مسلم ممالک کی بدامنی ‘ بے چینی خانہ جنگی ‘بے روزگاری غربت اور بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے ساتھ غروب ہوگیا مسلم ممالک کی طرح پاکستان کے خلاف بھی اس سال سازشیں جاری رہیں پاستان میں2015 کے سورج نے غروب ہونے سے قبل کئی گھروں کے چراغ بھی غروب کئے کسی کو دہشتگردی نے نگل لیا کوئی دیرینہ دشمنی کی بھنٹ چڑھ گیا کوئی سیلاب کی نذر ہوگیا تو کسی کو زلزلے نے اس دنیا میں مزید رہنے کی اجازت نہ دی جانے والے تو چلے گئے لیکن اپنے پیچھے اپنی یادوں کی داستانیں چھوڑ گئے نہ صرف داستانیں چھوڑ گئے بلکہ اپنے پیاروں کے لیے ایک نہ ختم ہونے والے مسائل کا سلسلہ بھی چھوڑ گئے۔اس سال غربت بے روزگاری’ مہنگائی’کرپشن’بدامنی اور دہشتگردی نے ایک عفریت کی شکل اختیار کی مہنگائی اور غربت کے باعث زندگی کے خاتمے کا رحجان بھی بڑھ گیا تھا اور اگر صورتحال یہی رہی تو اس نئے سال میں حالات اس سے بھی بدتر ہونے کے امکانات ہیں نئے سال کے آغاز پر ایلیٹ کلاس کے کچھ منچلے اس دن ملکی حالات سے بے پروا اپنی خرمستیوں میں مگن رہے جس طرح گزشتہ سال حکمرانوں نے دلفریب وعدوں اور سنہرے خوابوں سے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوششیںکیں اسی طرح نئے سال میں بھی حکمران نئے دعوؤں کے ساتھ قوم کے سامنے آئیں گے

سیاستدان بھی اقتدار کے سہانے سپنوں کے ساتھ لوگوں کو ورغلانے کے لیے خود کو فرشتہ سیرت اور دوسروں کو کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئیں گے ہر ایک دوسروںکو سہانے سپنے دیکھا ئیں گے اور دلفریب وعدے کرئیں گے یہ نیا سال ہے نئی منصوبہ بندیاں ہورہی ہوں گے اہم اور حساس ادارے اپنے پلان بنارہے ہوں گے نجی ادارے اپنے حساب کتاب میں لگے ہوئے ہوں گے اس نئے سال کی ابتدا پر بھی ہم نے اس سے بڑی امیدیں وابستہ کر لی ہیں جس طرح گذشتہ سال کی ابتدا ء پر ہم نے اس سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی تھیں دہشتگردی کے خاتمے اورامن و امان کے حوالے سے بھی کچھ توقعات تھیںجواب پوری ہوتی نظر آرہی ہیںگذشتہ سال بھی خونی ہی ثابت ہوا اور آرمی پبلک سکول پر حملے کی یاد سے لیکر مردان میں نادرا آفس تک خود کش حملے تک نے پوری قوم کو ایک نہ ختم ہونے والا دکھ دیا کہتے ہیں کہ امید پہ دنیا قائم ہے لیکن لگتا ہے یہ کہ امیدپاکستانیوں کے لیے نہیں ہے کیونکہ ہر دن دوسرے سے برا ہوتا ہے کچھ اندرونی اور بیرونی قوتیں ان سے یہ ”امید ”بھی چین رہی ہیں کچھ بیگانے داؤ آزما رہے ہیں کچھ اپنوں نے کسر نہیں چھوڑی بیگانوں نے ایک ادھم مچارکھا ہے اور لوگوں کی سانس کی ڈوری کھنچ رہے ہیں

تو اپنے بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے لگتے ہیں ایک طرف قومی خزانے کی لوٹ مار جاری ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنوں کو بھی نوازا جارہا ہے ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کی لوٹ مار ہورہی ہے اب لاکھوں اور کروڑوں کی تو بات ہی نہیں ایک طرف لوٹ مار جاری ہے تودوسری طرف حکمران اپنے اللوں تللوں میں کمی کی بجائے ہچکی لیتے خزانے کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے خود توٹیکس نہیں دیتے لوگوں پر نئے نئے ٹیکس لگارہے ہیں گذشتہ سال حکمرانوں نے یہی کچھ کیا اور اآئندہ سال بھی یہی چلن نظر آرہے ہیں کرپشن کا ایک سونامی بھی برپارہا جس میں ہر ایک نے اپنا بھرپور حصہ وصول کیااور کررہا ہے قومی اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچایاگیا اورپہنچایا جارہا ہے سال گذشتہ بھی گیس بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روزاضافہ کرکے لوگوں کو ان کی زندگی سے ہی بیزار کرنے کا مشن جاری رکھا گیا تاہم ابھی ایک دو ماہ سے اس میں کمی ضرور ہوئی لیکن اس کے باوجود بھی اس کا فائدہ عام آدمی کو کچھ نہیں ملا’قانون کو بڑے لوگوں کی لونڈی بناکر انہیں مکمل چھوٹ دی گئی ایک طرف صنعتوں کو رگڑا دیا گیا

Business

Business

تو دوسری طرف انہیں کھلی چھوٹی بھی دی گئی تاجر ہوں یا کارخانہ دارمن مانی کرتے رہے اپنا بینک بیلنس بڑھاتے رہے جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھتی رہیں اور لوگ اپنے اور خاندان کا صر ف پیٹ بھرنے کی فکر میں پڑے رہے لیکن پھر بھی شکم سیر نہ کرسکے اسی لیے تو آج کل سماجی ویب سائیڈز پرکچھ سلوگن عام ہوتے جارہے ہیں اس کے باوجود سب یہ دعوی کررہے ہیں کہ عوام سے کئے گئے تمام وعدے پورے کردئیے گئے ہیںانہیں ان کی دیلزپر تمام بنیادی سہولیات فراہم کردی گئیں یہاں تک کہ ملک کو دبئی اور قطر بنانے کے دعویدار بھی اب خاموش بیٹھے ہیں ہوسکتا ہے کہ اگلے الیکشن تک اس سے بھی بہتر دعوے سامنے آجائیں اس کے لیے ہمیں کچھ انتظار کرناپڑے گا اگر ہم گذشتہ سال پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں کہ اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا تو بغیر کسی لگی لپٹی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے گذشتہ سال کھویا بہت کچھ مگر پایا کچھ بھی نہیں سوائے دہشتگردی کی جنگ میں پاک فوج کی کامیابیوںکے ۔ملکی لحاظ سے بھی اور بین الاقومی لحاظ سے بھی دہشتگردی کی عفریت نے ہمیں وہ چوکے لگائے جیسے ہم جیتے جی شائد ہی بھول پائیںاور پھول جیسے معصوم کلیوں کی شہادت تو شائد ہی ہم بھول سکیںملک میںانتشار پھیلانے والوں کے خلاف ابھی پاک فوج میدان میں ضرور ہے جس میں اگر پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے تو کچھ اقتدار کے متوالے اور ذاتی مفادات کے اسیر پاک فوج کی اس مہم کو بھی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں جیسے ناکام بنانے کی ضرورت ہے

امید اور ناامیدی کے سائے میںایک اور سال بیت گیازندگی کے ماہ وسال کا ایک اور سال کم ہو گیا لیکن ہم بجائے سو چ وفکر کے اپنی ہی دھن میں مست ہیں کوئی سنہرے خوابوں کے جال بن رہا ہے کوئی اقتدار کے کے مزے لوٹنے کے لیے اس تک پہنچنے کے منصوبے بنا رہا ہے اور کوئی اپنے اقتدار کے دوام کے بارے میں سوچ رہا ہے اس سے قبل کہ ہم مزید پستی کی طرف جائیں قوموں کی صفوں میں سربلندی کے لیے ہم سب کو اپنے کردار کے بارے میں سوچنا چاہیے اور اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے جوپہلے ہی تار تار ہوچکے ہیں ہم سب کو اپنے قول وعمل پر غور کرنا چاہیے حکمرانوں کو بھی اور سیاستدانوں کو بھی انہیں بھی یہ عہد کر لینا چاہیے کہ وہ مزیداس کو قوم کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بجائے ان کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہیں گے اور اس نئی سال میں اپنے قوم کی وہ حقیقی خدمت کریں گے جس سے سابقہ کوتاہیوں کی بھی تلافی ہوجائے نیا سال شروع ہوچکا ہے اوراب اس نئے سال سے بھی ہم لوگوں نے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں لیکن کیا ہم اس میں کچھ پالیں گے یا اس میں بھی پاکستانیوں کی قسمت میں کھونا ہی لکھا گیا ہے ؟اللہ کرئے کہ ایسا نہ ہو آئیے ہم سب مل کر دعا کریں اے رب کریم سب سے پہلے ہمیں ہمارے اعمال کو درست کرنے کی توفیق دے ہمیں صالح حکمران دے جن کے دل میں قوم کا درد ہو اور جو قوم کوخوشیاں دے جو ذاتی مفادات کی بجائے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرئے۔

ہمیں ہمت عطا کر کہ ہم صراط المستقیم پر چل سکیںاور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرسکیںاے اللہ ہم آپ کی ناراضگی کی وجہ سے مختلف پریشانیوں اور مشکلات میں مبتلا ہیں اور آپ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اے رب کریم اس ملک پر رحم فرما اس کو دشمنوں کے برے ارادوں سے بچا اس کے حکمرانوں کو صراط مستقیم پر چلا اور ان کے دل میں اس قوم کا درد پیدا کر’ تاکہ اس ملک میںماردھاڑ کی سیاست کا خاتمہ ہو ‘کرپشن اگر ناپید نہ ہو تو کم از کم 1971 ء سے پہلے کی اس سطح پر آجائے جب رشوت نہ ہونے کے برابر تھی اور جو تھی وہ بھی سوپردوں میں لی جاتی تھی یا اللہ ہمیں کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے بچا اورمخلص قیادت دے اس ملک میں 1979 ء سے پہلے کی طرح کے امن وامان کا دور دورہ لا اے اللہ اس نئے سال کو ہم سب کے لیے امن وامان سے معمور بنا اور اس میں ہم کوبے شمار خوشیاں دے اور اسے ہمارے لیے بابرکت بنا’ یا اللہ ہماری اور ہماری اگلی نسلوں کو محفوظ بنایہی ہماری دعا ہے اسے اپنے دربار میںقبول و منظور فرما آئیے ہم سب ملکر آمین کہیں لیکن صرف آمین سے ہی کام نہیں چلے گااس کے لیے ہمیں اپنے کردار و عمل کو بھی درست کرناہو گا ورنہ تو صرف دعاؤں سے کام نہیں چلے گا۔

Sultan Hussain

Sultan Hussain

تحریر : سلطان حسین