تحریر : قاضی کاشف نیاز تاریخ کایہ کیساانوکھاموڑہے کہ آج ہمارے کشمیری بھائی 8لاکھ بھارتی فوج کی سنگینوں کے سائے تلے 6ماہ کے طویل ترین کرفیوکے باوجودکوئی دن خالی نہیں جاتا’جب وہ پاکستان کاپرچم اٹھاکربھارت کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے اور ہڑتالیں نہ کرتے ہوں’کہناآسان ہے کہ کرفیوکی اتنی سختیوں اور راشن تک ختم ہونے کے باوجود وہ کسی مسئلے کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان کاپرچم دیوانہ وار اٹھائے ہوئے ہیں اورصرف اتناہی نہیں کہ ان پرکرفیوکی سختیاں ہیں’ حالانکہ یہ بھی کوئی کم نہیں’ایک دن بھی کرفیو ہوتولوگوں کے لیے بے شمار مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں’صرف ایک دن ٹریفک جام ہی ہو تولوگوں کی جان پربن جاتی ہے لیکن کشمیریوں کے لیے نہ صرف 6ماہ سے مسلسل کرفیو جاری ہے بلکہ ان کے لیے اب سزائیں بھی شروع ہوگئی ہیں کہ جوبھی کشمیری بچہ’بوڑھا’جوان پاکستان کاپرچم اٹھائے’بھارتی فوجی اس کاایک ہاتھ اور پاؤں دونوں توڑدیتے ہیںجبکہ اب تک صرف 6ماہ میں بھارتی فوج کی پیلٹ ودیگرگنوں سے117کشمیری شہیداور1390 کی آنکھیں ضائع ہوچکی ہیں۔12ہزارکشمیریوں کو جیل میں ڈالاجاچکاہے۔آفرین ہے کہ اتنی سخت آزمائشوں اورمصائب وآلام میں اتنے طویل عرصے سے گھرے ہونے کے باوجودکشمیریوں کے پائے استقامت میں ذرہ بھر لغزش نہیں آئی’صرف اس لیے کہ ان کا یہ نظریہ ان کے ایمان میں شامل ہے کہ پاکستان سے ان کا رشتہ لاالٰہ الااللہ کی ایسی بنیادپراستوارہے کہ وقت کے ہرقسم کے ناموافق حالات بھی اس بنیاد کو کمزور نہیں کر سکتے۔
اس کے باوجود ہم پاکستانیوں کو بہرحال اپنے گریبان میں جھانکنا بھی ضروری ہے کہ جو لوگ ہماری بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں’جنہوں نے اپناآج اور کل ہمارے لیے قربان کیا ہواہے’اپنا آرام سکون سب ختم کیاہواہے اور جن کی عظیم قربانیوں کے سبب بھارتی فوج کشمیرمیں اس قدر پھنسی ہے کہ وہ پاکستان کی طرف رخ کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتی’ان محسنوں کے لیے ہم خود کیا کررہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کی عظیم قربانیوں کے جواب میں پاکستان سے ابھی تک انہیں اپنی توقعات کاعشرعشیر بھی جواب نہیں ملا’جب مدعی ہی سست پڑجائے توسارامقدمہ اورساراکیس ہی خطرے میں پڑجاتاہے اور دشمن کسی بھی وقت اس سستی سے فائدہ اٹھاکر مدعی کے حامیوں کو مایوس کرکے اورانہیں اپنے حق میں کرکے ہاری ہوئی بازی جیت سکتاہے۔یقیناپاکستان میں افسوسناک طورپر صورتحال ایسی ہی نظرآتی ہے کہ حکومت اوربڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کو صرف اپنے اقتدار کے کھیل کے سوااورکسی ملکی وملّی مسئلے سے غرض ہی نہیں۔عمران خان کو حکمرانوں میں اگرکوئی برائی نظرآتی ہے توصرف کرپشن کی’کشمیرکے مسئلے پر حکومت کا کیاکردار ہے’ اس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔وہ اپنے اقتدار کے لیے توبڑی بڑی ریلیوں اور دھرنوں کا اہتمام کرتے ہیں لیکن کشمیرمیں بھارتی مظالم اور پاکستان کے خلاف بھارتی سازشیں انہیں دوردورتک نظرنہیں آتیں’اس کے خلاف وہ کبھی ایک معمولی ریلی کا بھی اہتمام نہیں کرتے حالانکہ یہ ملکی بقاء کامسئلہ ہے’۔
اگر ملک ہی نہیں توکچھ بھی نہیں۔ نہ اقتدار’نہ کرسی…!دوسری طرف پیپلزپارٹی کوبھی عوام کے چھوٹے موٹے معمولی مسئلے تونظرآتے ہیں لیکن کشمیر ان کا بھی کہیں موضوع نہیں ہے اور حکمران توجیسے پہلے ہی نیرو کی طرح چین کی بانسری بجارہے ہیں۔کشمیربے شک جلتاہے’ جلتارہے ‘ان کی بلا سے’ان حالات میں اس بات کی اشدضرورت تھی کہ اپنے کشمیری بھائیوں کو یہ باورکرایاجائے کہ وہ اپنی جدوجہد میں اکیلے نہیں’بے شک پاکستانی سیاستدان اورحکمران بہت غفلت کامظاہرہ کررہے ہیں لیکن پاکستان کے عوام کُلّی طورپر ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی جدوجہد میںان کے ساتھ برابرشریک ہیں۔13جنوری کویہ ذمہ داری محسن ملت اور اہل کشمیر واہل پاکستان کی امنگوں کے ترجمان حافظ محمدسعید نے کشمیری رہنماؤں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ تاریخی اعلان کرکے پوری کی کہ فروری کاپہلا ہفتہ اور 2017ء کا پوراسال کشمیر کے نام ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اب ہماری تمام سرگرمیاں تحریک آزادیٔ کشمیرکے نام سے ہوں گی اور اپنی جماعتی سرگرمیوں میں جماعتی تشخص سے بالاترہوکر جماعة الدعوة کی بجائے صرف پاکستان کاپرچم لہرایاجائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے کشمیری اپنے تمام جلسوں جلوسوں میں صرف پاکستان کاپرچم لہراتے ہیں۔
Media
23جنوری کواس سلسلے میں پروفیسرحافظ محمدسعید نے لاہورمیں ایک میڈیا بریفنگ کااہتمام کیااور میڈیاکے ذمہ داران ‘مدیران اور صحافی حضرات کے سامنے کشمیر کامقدمہ بڑے مفصل ومدلل اندازمیں پیش کیا۔انہوں نے کانفرنس میں موجودمقبوضہ کشمیر کے ایک صحافی شبنم قیوم کی یہ تحقیق پیش کی جسے اور بہت سارے محققین کی حمایت حاصل ہے کہ الحاق کشمیرکے بارے میں مہاراجہ ہری سنگھ کے دستخطوں سے اقوام متحدہ میں جو دستاویز بھارت نے پیش کی ہے’ وہ جعلی تھی’اسی جعلی بنیاد پر وہ کشمیر پرقابض ہے۔اگریہ دستاویز اصلی ہے تو پھر کیاوجہ ہے کہ بھارت نے آج تک عوام کو اس دستاویز تک رسائی نہیں دی۔انہوں نے کہا’بھارت کشمیرتوکیا’ہمارے دریاؤں کے پانی پر بھی قبضہ کرکے سینکڑوں ڈیم دھڑا دھڑبنائے جارہاہے’ ملک کو صحرا بنا رہاہے لیکن حکمرانوں کو نہ کشمیرکی فکرہے نہ ملک کی’الٹاجو بھارتی سازشوں کو بے نقاب کرتاہے’اس پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں اپوزیشن وحکومت سب کاکشمیرپرایک موقف ہے لیکن پاکستان میں ہر سیاستدان کا اپنا موقف ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت وادیٔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کر رہاہے۔ جانے والے پنڈتوں کو پہلے سے کئی گنا زیادہ تعداد میں لاکر بسایاجارہاہے۔
یہاں تک کہ کشمیرمیں فوجی خدمت انجام دینے والے ریٹائرڈفوجیوں کے لیے بھی کالونیاں بنائی جارہی ہیں جو ایک لمحۂ فکریہ ہے۔انہوں نے کہاکہ سب جماعتوں کو کشمیر پر قائداعظم کے موقف پرمتفق ہوجاناچاہیے جس پر کسی کوکوئی اختلاف نہیں ہوسکتاکہ کشمیرپاکستان کی شہ رگ ہے اور حق خودارادیت ہی مسئلہ کشمیرکاحل ہے۔اس اتفاق کو پیدا کرنے میں میڈیا اپنی قومی ذمہ داری پوری کرے۔حافظ محمدسعیدنے کہاکہ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیرمیں استصواب رائے کے لیے سلامتی کونسل کے باہردھرنا دیں اورجب تک وہ نہ مانیں’دھرنا جاری رکھیں۔انہوں نے کہاکہ کشمیر کے بارے میں حکمرانوں’سیاستدانوں اور پوری قوم کو بیدارکرنے کے لیے 2017ء میں بھرپورکام کیاجائے گا۔
Hafiz Saeed
اس مقصد کے لیے سیمینار’جلسے’آل پارٹیز کانفرنسز اور دیگرپروگرام ہوں گے۔حافظ محمدسعید کی اس بروقت تحریک کانتیجہ ہے کہ 13جنوری کو دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں ایک عظیم الشان کشمیرکانفرنس میں بلوچستان کے ایک بڑے بلوچ رہنماشاہ زین بگٹی نے تاریخی اعلان کیا کہ50ہزار بلوچ جہادکشمیرکے لیے تیار ہیں۔ا س اعلان سے اہل کشمیر کو یقینا بہت بڑا حوصلہ ملاہے۔اس تحریک سے یقینا ایسے ہی بہت سے ثمرات وقت کے ساتھ ساتھ جلد سامنے آئیں گے اور حافظ محمدسعید جیسے محب وطن جانبازوں کی موجودگی میں کشمیر اور پاکستان کے خلاف بھارت کی تمام سازشیں ان شاء اللہ 2017ء میں ہی دم توڑدیں گی اورکشمیرپاکستان بن کر قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر بنے گا۔ ان شاء اللہ