مہنگائی اور مجبوری

Wishes

Wishes

تحریر: محمد ریاض بخش
کنورئے ارو گھر سے دور رہنے والے کی زندگی بھی ایک لطیفہ ہوتی ہے۔ بچارہ کئی چیزوں سے محروم رہتا ہے جیسے کہ فیملی چھوٹے بہن بھایئوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات ماں باپ کی ڈانٹ ارو خاص کر کے اپنے گھر کا بنا ہوا کھانا۔ میں پچھلے 6 سال سے کیولری گرونڈ میں رہ رہاہوںوہ بھی اکیلاان چھ سالوں میں میں نے گھر کے سارے کام سیکھ لیے ہے مثلاء کپڑے دھونا کھانا بنانا وغیرہ۔ ۔ چلیے چھوڑے یہ ایک ارو کہانی ہے جو کسی ارو دن سہی یہاں میں اپنے کھانے کا ذکر کرتا ہوں مطلب میں بہت اچھا کھانا بنا لیتا ہوں یہ میں نہیں کہہ رہامیرے آفس کا سٹاف کہتا ہے میں دوپہر کاکھانا گھر سے ہی لے جاتا ہوں آفس کا کچھ سٹاف میرے ساتھ share کر لیتا ہے۔۔

میری روز کی روٹین 5-15 پے گھر آتا ہوں تھوڑا آرام کیا اُس کے بعد گھر کے چھوٹے موٹے کام کیے پھر cooking شروع کرتا ہوں ،مجھے کھانا بنانا بہت اچھا لگتا ہے اس لیے بڑئے آرام سے ارو دل لگا کے cooking کرتا ہوں روٹی بنانا بھی مجھے آتی ہے مگر میں روٹی بنانے سے بہت بھاگتا ہوںکوں دو روٹیاں کے لیے پہلے آتا گوندے پھر توئے پے اپنے ہاتھ جلائے جب میں نے روٹی بنانا سیکھی تب تو بڑا مزہ آتا تھا کیوں کہ روز آلو کے پراٹھے بناتا تھا۔۔جب ہاتھ ذیادہ جلنے لگ گئے تب سے میں نے آٹا گوندھنا ہی بند کر دیا۔روٹیاں میں باہر سے مطلب تندور سے لاتا ہوں میرے گھر کے پاس ہی کیولری مارکیٹ ہے وہاں ایک ہی تندور ہے ارو میں پچھلے 3 سالوں سے وہی سے روٹیاں لاتا ہوں۔

Job

Job

اس تندرو پے ٹوٹل آٹھ لوگ کام کرتے ہے وہ مجھے جانتے ارو میں اُنے بڑی اچھی طر ح جانتا ہوں مگر صرف چہرئے سے نا مجھے اُن کے نام کا پتہ ہے نا ہی اُن کو میرے نام کا ۔۔بس میں اُن کا 12 روپے کا کسٹمر ہوں۔ایک ماہ پہلے اُ ن میں سے ایک لڑکا کم ہو گیا پوچھنے پے پتہ چلا کہ اُس کو یہا ں سے ذیادہ پیسوں کی نوکری کہی ارو مل گئی ہے۔10 دن پہلے وہ لڑکا مجھے وہی تندور پے ملا اُس کے پہنواے سے ہی پتہ چل رہا تھا کہ اُس کو واقع ہی کہی اچھی نوکری مل گئی ہے میری اُس سے دعا سلام ہوئی تب اُس نے اپنا نام ماجد بتایامیں اُس سے اُس کے کام کا پوچھا تو کہتا بھائی 5 یا 6 گھنٹے کا کام ہے 15 سوسے 2 ہزارتک کما لیتا ہوں۔میں نے مذاق میں کہا ایسا کون ساکام ہے مجھے بھی بتائوتو اُس نے اپنی جان چڑواتے ہوے کہا بھائی کل آئو گا پھر بتائوں گاابھی مجھے تھوڑی جلدی ہے۔

میں ابھی روٹیاں لے کر واپس مڑا ہی تھا کہ ماجد کا دوست جو اسی تندور پے کام کرتا ہے ارو کر رہاہے مجھ سے مخاطب ہوکر کہتا کہ بھائی میں آپ کو بتائو ماجد کیا کام کرتا ہے میں نے کہا جی۔۔تو وہ کہتا کہ ماجد بھیک مانگتا ہے میں نے اُسے کہا کیا بکواس کررہے ہوں وہ کہتا بھائی اگر یقین نا آئے تو dha والے سگنل پے خود دیکھ لینا۔خیر میں گھر آہ گیا ارو یہ بات مجھے بھول گئی۔کل میں اپنے بوس کے ساتھ dhaجا رہا تھا yblock کا سگنل بند ہوا تو بھکاری ڈور کر گاڑیوں کے آگے پچھے آہ گئے جیسے یہ اُن کی زندگی میں آخری سگنل بند ہوا ہے اس کابعد ہم لوگ مر جائے گئے۔جیسے کے مجھے لکھنے کا شوق ہے تومیں ہر جگہ کہانی تلاش کر رہا ہوتا ہوں۔۔

 Tandoor

Tandoor

میں اپنی نظریں ادھر اُدھر گمارہا تھا کہ میری نظر ایک شخص پے پڑی ارو میں حیران ہوتے ہوئے اپنے بو س سے مخاطب ہوا سر یہ تو ماجد ہے اس کو تو میں جانتا ہوں ۔بوس کہتے کون ماجد میں نے بتایا کے جس تندور سے میں روٹیاں لاتا ہوں وہاں یہ پہلے کام کرتا تھا۔بو س کہتے تو پھر یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔میں گاڑی سے باہر نکلا ارو اُس کوآواز ماری تو کچھ بھکاری میری طرف ڈور کر آئے جیسے میں اُن کوکوئی بڑی بھیک دینا چاہ رہا ہوںخیر ماجد نے اُن کو مجھ سے دور کر دیا۔۔ماجد مجھے سلام کرتے ہوئے میرے قریب آیا میرا پہلا سوال کچھ ایسے ہواتم یہا ں کیا کر رہے ہوکیسے کپڑے پہنے ہوئے ہے ارو یہ تمہارے ہاتھ کو کیا ہوا ہے۔

ماجد مجھے کہتا بھائی کسی سائڈ پے گاڑی لگا لے یہا ں میری کچھ عزت ہے ۔میں آگے سائڈ پے گاڑی کھڑی کی وہ بھی آگے آہ گیا۔اُس ٹائم ماجد کی حالت کچھ یوں تھی۔منہ پے کافی سارہ تیل ارو اُس میں ایک عجیب رنگ کی مٹی جس سے ظاہر ہورہاتھا کہ ماجد کئی سالوں سے بیمارہے جیسے یرقان کی آخری stageہوایک بازو پے سفید رنگ کی پٹی باندھ کر اسکو گلے میں لٹکا رکھا تھاارو چل ایسے رہا تھا کہ جیسے ٹانگوں میں بھی کوئی مسلہ ہو۔۔ماجد۔ریاض بھائی آپ یہاں کیا کر رہے ہو؟میں اُسے گالی نکالتے ہوئے پھر وہی سوال کیے۔اُس نے مجھے سب بتایا۔اُس نے بتایا تندور پے میری مزدری چھ سو تھی ارو چودہ گھنٹے کام کرنا پڑتاتھا۔ جس میں گھر کا گزرا نہیں چل رہا تھا میں ذیادہ پیسوں کے کام کے لیے کافی بھاگ ڈرو کی مگر سب بے فائدہ۔کچھ دن پہلے میں نے ایک indianمووی دیکھ the signal جو بھکاریوں پے بنی ہوئی ہے جیسے جیسے میں سین دیکھتا گیا میرے دماغ میں ہل چل مچ گئی۔۔

Compulsion

Compulsion

ارو دوسرے دن ہی میں بھیک مانگنے لگ گیاایک دو دن عجیب لگا مگر جب پیسے اچھے ملنے لگ گئے تب سب شرم وحیا مٹ گئی۔اب میں روز15 سو 2 ہزر تک کما لیتا ہوں۔ گھر کا گزرا بڑا اچھا چل رہا ہے اور شام کو اپنے بیوی بچوں کے پاس بھی چلا جاتا ہوں عجیب لگتا ہے مگر مجبوری ہے ۔میرے بوس اُس کو گالی نکالتے ہوئے کیا مجبوری ہے؟تو کہتا چھ سو میں گھر کا گزرا نہیں چلتا۔ مہنگائی اتنی ہو گی ہے۔گھر کا کرایہ بجلی کا بل ارو پھر کھانے کا خرچہ میرے چار بچے ہے ہے پھر اُن کا خرچہ۔۔خیر اُس نے کافی بکواس ارو بھی سنائی آخر میرے بوس تنگ آہ کر اُس کو بھگا دیا۔۔

مجھے صرف ایک لفظ کی سمجھ آئی ہے وہ ہے مجبوری۔۔جی یہ بات تو اُس کی ٹھیک ہے گھر کے خرچے اتنے بڑھ گئے ہے کہ ٠٠٦ میں گزرا کرنا مشکل ہے ان سب کی وجہ ایک ہی ہے مہنگائی۔ہمارے روزمرہ میں استعمال ہونے والی چیزیں اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ ایک عام بند ہ اُن چیزوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک بار یہ ضرور سوچے گا کہ کہی اسکو ہاتھ لگانے کے پیسے تو نہیں لگتے۔٠٠٦ سو مطلب 18000 تنخواہ کافی ہے مگر جس قسم کی ہمارے ملک میں مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے اُس کے آگے یہ پیسے کچھ بھی نہیں ہے اس مہنگائی سے تو ایک لاکھ کمانے والا بھی رو رہا ہے ہے یہ تو بچارہ ماجد تھاہماری گورمنٹ کو چاہے کے روڈ ارو جلسے کی بجائے عوام کی روزمرہ میں استعمال میں ہونے والی چیزوں پے توجہ دیں جو ہمارے لیے بہتر ہے ارو ان کے لیے بھی تاکے کوئی ماجد ہلال چھوڑ کر حرام نا کھائے۔۔روڈ یا جلسے ضروری ہے یا روزمرہ میں استعمال میں ہونے والی چیزیں ۔یہ سوال ہے جس کا جواب میرے پاس تو نہیں تھا شائد آپ کے پاس ہو۔۔

Muhammad Riaz Bakhsh

Muhammad Riaz Bakhsh

تحریر: محمد ریاض بخش