تحریر: میر افسر امان سال 2014ء بھی گزر گیا اور گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی ہمارا پاکستان قائد اعظم کا پاکستان نہ بن سکا۔ پاکستان بننے کے بعد ١٤ فروری ١٩٤٨ء کو قائد اعظم نے سبی دربار سے خطاب میں فرمایا تھا ” ہماری نجات کا واحد ذریعہ ان زرین اصولوں پر مشتمل ضابطہ حیات پر عمل کرنا ہے جو قوانین ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ۖ نے قائم کر دیے ہیں”کیا ہم نے قائد کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنی نجات کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ قوانین، جو زرین ا صولوں پر مشتمل ضابطہ حیات ہیں ، کو پاکستان میں رائج کئے؟ حکمرانوں نے یہ سال بھی افراتفری میں ہی گزار دیا اور پاکستان ویسے کا ویسا ہی رہا۔
ہم آپس میں ہی لڑتے رہے۔ کوئی پاکستان کو انقلاب کے ذریعے فتح کرنے کے لیے باہر سے تشریف لایا۔ ہلہ گلہ کر کے اپنے خیمے اُکھاڑ کر پھر واپس باہر چلا گیا۔ کوئی نیا پاکستان بنانے کی کوشش میں قوم کو ناچنے گانے کی عادت ڈال کر ہفتوں ملک کو ڈسٹرب کرتا رہا مگر نیا پاکستان نہ بن سکا۔ کوئی جعلی الیکشن کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ حکومت میں بیٹھ گیا۔ تیسری بار اقتدار ملنے کے باوجود کچھ بھی ڈلیور نہ کر سکا۔ کوئی سیاست میں آتے ہی روٹی ،کپڑا، مکان کا وعدہ کرتا ہے مگر اقتدار میں بار بار آنے کے باوجود غربت پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ مذاکرات تو کیے جا رہے ہیں مگرابھی تک حکمران جماعت اورتحریک انصاف نے ان کو کسی نتیجہ پر نہیں پہنچایا۔حتہ کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے دورے کے دوران شہدا کے والدین کو بھی کہنا پڑا کہ کہاں ہے آپ کا نیا پاکستان؟ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس سال بھی قائد اعظم کے کسی بھی سنہری اصول پر عمل نہیں کیا۔ حکمرانی کی ہوس نے قائد کی مسلم لیگ کو ایمان،اتحاد تنظیم کی لڑی میں نہ پرویا گیا اور بقول شخصے مسلم لیگ الف سے تک کے حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔
کسی کو بھی قائد اعظم کے پاکستان کی فکر نہ رہی۔بھٹو صاحب نے ایک اسلامی آئین تو بنا دیا مگر آج تک اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔ اس آئین کے مطابق ایک اسلامی نظریاتی کونسل قائم ہے جس نے ملک کے قوانین کو اسلامی بنانے کے لیے ایک اپنی سفارشات تمام حکومتوں کو پیش کیں مگر ان سفارشات کو کسی حکمران نے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ شریعت کورٹ کی طرف سے ملک کے ما لیاتی نظام سے سود کو ختم کرنے کے فیصلے پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ بلکہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کر کے اس کے عمل کو روکا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ سے اس کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ ١٣ سال قبل امریکا کی ایک کال پر ڈکٹیٹر مشرف نے ہتھیار ڈال دیے تھے پڑوسی اسلامی ملک پر امریکا نے٢٠٠١ء میں حملہ کر دیا تھا۔ ڈکٹیٹر مشرف نے اسے ملک کی بندرگاہیں، ہوائی اڈے اور زمینی راستے دے کر افغانستان کو تورا بورا بنا دیا تھا۔ امریکا کی چالبازیوں کی وجہ سے اب یہ جنگ ہمارے ملک میں لڑی جارہی ہے۔ ساٹھ ہزار انسانوں اور سو ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ پھر بھی حکمران اس جنگ سے باہر نہیں نکل رہے۔
Terrorists
امداد لینے کی وجہ سے مقتدر حلقے امریکا کی باتیں ماننے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ دہشت گردوں نے اس سال بھی ملک کی ہر اہم جگہ پر حملے کیے ہیں۔ سب سے بڑا واقعہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہے جس میں ١٣٤ بچوں سمیت کئی پاکستانی شہید ہو گئے ہیں یہ واقعہ بھارت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کیا ہے۔اب سیاست دان فوج کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ پاکستان میںکئی سالوں سے سزائے موت پر عمل در آمد روکا ہوا تھا۔ جس کی وجہ بین الاقومی پریشئر تھا۔موت کی سزا پانے والوں میں سے کچھ کوپھانسی پر چھڑا دیا گیا ہے کچھ پھانسی کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری بان کی مون کا وزیر اعظم کوفون آیا کہ موت کی سزا پر عمل درآمد روک دیا جائے۔ ان کو جواب دیا گیا کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ ایمسٹی انٹر نیشنل نے بھی سزائے موت کو روکنے کا کہا ہے۔ اس سال کی ایک اور بڑی خبر امریکا کا ٤٨ ملکوں کے ساتھ افغانستان سے واپس جانا ہے۔ امریکیوں نے نیٹو کاجھنڈا اُتر دیا۔ افغانستان کے صدر نے ایک تقریب کے اندر اپنے ملک کاجھنڈا لہرادیا۔ایک معاہدے کے تحت امریکی دس ہزار فوجی اب بھی افغانستان میں رکھے گا۔ طالبان نے افغانستان میں ناٹو کی جنگ کے باضابطہ اختتام پر حقارت آمیز ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے۔ امریکی قیادت میں ناٹو نے ظلم اور سفاکیت کر کے افغانستان کو خون کے تالاب میں ڈبویا ہے۔ ہم اپنا جہاد جاری رکھیں گے جب تک ایک بھی غیر ملکی فوجی وردی میں ملبوس افغانستان میں تعینات رہے گا۔ اربوں ڈالر خرچ کر کے لاکھوں لوگوں افغانیوںکو شہید کر کے، امریکا اب نامراد اور شکست خوردہ ہو کر افغانستان سے واپس جا رہا ہے یہ فاقہ مست افغانوں کے ملک پر قابض امریکا اور ناٹو فورسس کے لیے ایک سبق ہے۔
ان کی ٹیکنالوجی اور جدید مشینری جہاد کے سامنے فیل ہوئی اور آیندہ بھی جس جگہ مسلمانوں پر ظلم ڈھانے کی کوشش کی گئی ایسی ہی عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑے گا ان شاء اللہ۔یہی تاریخ کا سبق ہے۔ دوسری طرف ہمارے ازلی دشمن بھارت میں ایک مذہبی جنونی ہندو حکومت نریندر مودی کی شکل میں قائم ہو چکی ہے۔ ان کی حکومت نے مسلمانوں کو ذبردستی ہندو بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔آئے دن وہ ہماری سرحدوں پر فائرنگ اور ایبٹ آباد طرز کی کاروائی کی دھمکی دے رہا ہے۔ بھارت کی شہہ پر امریکا نے ہمارے شہریوں کے سر کی قیمت لگا دی ہے۔ بھارت اور امریکا اس سال بھی کراچی اور بلوچستان میں پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی پالیسی اور علیحدگی پسندوں کی مدد کرتا رہا ہے۔اس کا ملک کے سیاست دان اور حکومت کے خفیہ ادارے کئی بار اعتراف بھی کر چکے ہیں۔ کیا حکومت نے اس کا توڑ کیا؟اس سال پاکستان لاہور انار کلی اور کراچی ٹمبر مارکیٹ میں آتشزدگی کے دو بڑے واقعات ہوئے جس سے بہت بڑاجانی اور مالی نقصان ہوا۔قتل،اقدام قتل اور ١٠٠ سے زائد مقدمات میں مطلوب لیاری گینگ وار کے عزیر جان بلوچ جس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ مقرر کی گئی تھی کو دبئی میں گرفتار لر لیا گیا۔ تیس روز میں پاکستان لانے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔اس سال پاکستان میں پشاور آرمی پبلک اسکول کے علاوہ ٢٥ دہشت گرد حملے ہوئے جس میں ٤٦٣ افراد جان بحق ،٩٠فوج اور سیکورٹی اہلکار شہید اور ٨١٩ زخمی ہوئے۔ پورے ملک میں شدید بدامنی رہی۔اس سال بھی ڈرون حملے جاری رہے۔
کراچی میں اس سال ساٹھ افراد بم دھماکوں میں جان بحق اور تین سو پچاس سے زائد زخمی ہوئے۔ جان بحق ہونے والوں میں ایس پی سی اسلم چوہدری، انسپکٹر شفیق تنولی سمیت اکیس پولیس افسران اور،رینجرز کے تین افراد شامل ہیں۔کراچی سنٹرل جیل سے خطرناک قیدی چھوڑانے کے لیے، ملحقہ آبادی کے ایک مکان سے جیل تک ٤٥ میٹر سرنگ کھودی گئی۔ جیل تک پہنچنے کے لئے صرف ١٠ میڑ رہ گئی تھی کہ ملزمان کو دھر لیا گیا۔ سوشل ورکرعبدالستار ایدھی کے سنٹر پر ڈاکہ مار کر پانچ کلو سونا اور لاکھوں ڈالر لوٹ لیے گئے۔ تھر میں سال بھر میں ٦٠٠ بچے غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اس سال متنازہ شخصیت ،جس نے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، اسلام دشمنوں کی طرف سے تعلیم کے نام پر نوبائل انعام حاصل کیا۔