تحریر : میر افسرامان سال٢٠١٥ء میں کون کون سے قومی ہداف حاصل کئے گئے اور کون سے حاصل نہ ہو سکے ۔ہر مملکت کے چلانے کے لیے چار ستون مانے گئے ہیں عدلیہ،انتظامیہ،مقننہ اور صحافت، اگر یہ چار ستونوں نے اس سال کچھ ترقی کی ہے یا اپنے آپ کو مضبوط کیا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ قوم نے کچھ حاصل کیا ہے اور اگر یہ چار ستون ویسے ہی پہلے جیسے چلتے رہے تو کہا جائے گا کہ سال رواں میں بھی پہلے کی طرح ہی رہا۔ ملک کا سب سے پہلا اور بنیادی ڈھانچہ اسلام ہے جس کے نام پر یہ ملک قائد محترم نے پاکستان حاصل کیا تھا۔ نواز شریف صاحب نے اپنے ایک بیان میں سیکولر کی بات کر کے ملک کے ساتھ زیادتی کی ہے جس پر انہیں رجوع کرنا چاہیے۔اگرسب سے پہلے عدلیہ کی بات کی جائے تو سپریم کورٹ کے معز زجج نے اُردو کو حکومت میں رائج کرنے کا حکم جاری کیا انہوں نے خود اردو میں فیصلہ لکھ اور اردو میں تقریر کی۔ موجودہ چیف جسٹس نے بھی سینیٹ میں اُردو میں تقریر کی۔گو کہ حکومت نے حسب روایت اس پر عمل کرنے میں ٹال مٹول کا مظاہرہ کیا اور اقوام متحدہ میںجہاں دوسری حکومتوں کے سربراہوں نے اپنے اپنے ملک کی زبانوں میں تقریریں کیں وہاں ہمارے حکمران نے اُردو میں تقریر نہ کر کے اپنے غلام ہونے کا ثبوت دیا۔عدالتی نظام کی کمزروی کی وجہ دہشت گردی کے مجرم عدالتوں سے بری ہوجاتے رہے ہیں۔ اب قانون کے مطابق فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں ان سے دہشت گردوں کو سزائیں ہورہی ہے جس سے عوام کو انصاف ملنا شروع ہو ہے۔
عدلیہ کا کام ہے کہ وہ پاکستان کی عوام کو قانونی مدد فراہم کرے اور عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ہو اور دستور کی اسلامی دفعات کی محافظ بنے۔ مگرسپریم کورٹ نے دستوری ترمیم والے کیس میں پارلیمنٹ کو کھلا اختیار دے دیا ہے کہ جب وہ چاہے دستور کے اسلامی ڈھانچے کو ختم کر سکتی ہے اسلامی نظریاتی کونسل اوروفاقی شرعی عدالت کوختم کیا جاسکتاہے۔ حدود آرڈیننس ،قانون قصاص ودیت،قانون شہادت،زکوٰة و عشر کا قانون،احترام رمضا ن ایکٹ حتہ کہ قرارادا مقصد اور ساری دینی دفعات جیسے ریاست کا مذہب اسلام ہے سب ختم ہو سکتے ہیں۔ اس فیصلہ سے اسلامی حلقوں میں تفتیش کی لہر دوڑ گئی ۔ دوسری بات جس سے عوام عدلیہ سے مایوس ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ سود کے بارے میں ایک معزز جج نے فرمایا”ہم سپریم کورٹ کے باہر مدرسہ کھول کر وعظ نہیں کر سکتے کی سود حرام ہے۔ جو سود نہیں لینا چاہتا نہ لے، جو لیتا ہے اس سے اللہ پوچھے گا”٢١ سال قبل وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا تھا مگرحکومت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست داہر کی ہوئی ہے جس پر عدالت نے کے ایک معزز جج نے یہ فرمایا ہے۔
عوام تو گذشتہ ٢١ سال سے انتظار کر رہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولۖ سے جنگ کب ختم ہوتی ہے۔ انتظامیہ کی بات کی جائے تو ملک کا نظم ونسق مسلم لیگ(ن) جو ٢٠١٣ء سے ملک کی حکمران ہے کے ہاتھ میں ہے جس نے عوام سے و عدہ کیا تھا کہ وہ الیکشن جیت کر ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر خزانے میں داخل کرے گی۔ چھ ماہ کے اندر بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کرے گی ملک سے دہشت گردی ختم کرے گی۔لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیابلکہ جب رینجرز نے اُن پر ہاتھ ڈالا تو مفاہمت کی پالیسی کے تحت ان کو تحفظ دینے کی باتیںسنی گئی ہیں۔چھ ماہ میں بجلی اور گیس لوڈ شیدنگ کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوا سردی کے آتے ہی گیس کے بند ہونے پر لوگ سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ بجلی کی وجہ سے کارخانے بند پڑے ہیں۔ہاںدہشت گردی کچھ ختم کم ہوئی ہے۔ اس کی وجہ ضرب عضب کی کامیاب کاروائیوں ہیں۔
Terrorist
کراچی میں دہشت لسانی تنظیم جس کے کارکن را سے ٹرنینگ لے کے آئے ۔را سے فنڈنگ لیتے رہے ،ہر پکڑے جانے والے دہشت گرد نے اعتراف کہا کہ اُس نے اِتنے قتل کئے ہیں۔ اخباری خبروں کے مطابق باہر سے حکم ملنے پر ان سے نرم رویہ اختیار کیا گیا ہے جس سے ابھی تک عوام میں خوف کی فضا قائم ہے۔ فوجی اور سپریم کورٹ تک نے حکومت کے بیڈ گورننس کی باتیں کیں ہیں ۔ حکومت بھارت سے دب کر بات کرتی ہے جس سے عوام کے دل میں نواز لیگ کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔مودی کے پاکستان کے اچانک دورے کو ذاتی مفادات تک رکھا گیا جس ملک میںملا جلا رد عمل سامنے آیا۔یہ صحیح ہے کہ ذمنی اوربدلدیاتی انتخابات میں حکومت کو کامیابی ہوئی مگر اس کی وجہ حلقے قومی خزانے سے ترقیاتی اخراجات بتاتے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول کے دہشت گردی کے واقعے پر مقننہ نے دہشت گردی کے خلاف قانون بنا کر بہت بڑی پیش رفعت کی ہے پوری قوم نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کا ساتھ دیا اس پر بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اسی قانون کے تحت ایپکس کمیٹیاں بنیں۔ قومی اور صوبائی ایپکس کمیٹیاں نیشنل ایکشن پلان کی کارکردی کا جائزا لے رہی ہیں۔
گو کہ اس پر حکومت مکمل عمل درآمد نہ کرا سکی اس پر تنقید بھی ہوتی رہتی ہے۔ بہرحال اس سے ملک میں دہشت گردی پر کافی حد تک کنٹرول ہو گیا ہے پھر بھی دہشت گردوں نے بڈھ بیر اور کل نادرہ کے دفتر کے گیٹ پر خود کش حملہ کیا جس میں شہری دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔کراچی کی لسانی فاشسٹ تنظیم کے قائد جو برطانوی شہری ہے کی پاک فوج پر گالی گلوچ پر مقدمہ قائم ہوا۔
عدالت نے الطاف حسین کی تقریر اور فوٹو پر پابندی لگادی ۔اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں اس غلط حرکت پر الطاف حسین کے خلاف عوام نے عدالتوں میں سو سے زائد مقدمے داہر کئے۔ پیپلز پارٹی کی سنٹرل کمیٹی نے آصف زرداری کو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے ساتھ پیپلزپارلیمنٹرین کا صدر بھی منتخب کر لیا۔ اخباری خبر کے مطابق صرف آٹھ ممبران نے ہاتھ کھڑے کئے تھے باقی خاموش بیٹھے رہے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے دہشت گردوں کے علاج اور کرپشن پر رینجرز کے ہاتھوں کرفتار ڈاکٹر عاصم کے حق میں رینجرز کے اختیارات کو ختم کر دیاتھا۔
Bilawal Bhutto
بے نظیر بٹھو کے پروگرام میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے قومی نیشنل ایکشن پلان کو متنازہ بناتے ہوئے نواز شریف نیشنل پلان قرار دے دیا ہے۔ وفاق نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے رینجرز کو واپس دہشت گردوں اور ان کے سہلوت کاروں کو دہشت گردی ایکٹ کے تحت دوبارہ اختیارات دے دیے ہیں جو قانون کے مطابق ہیں۔اس پر بات کرنے کے لیے سندھ کے وزیر اعلیٰ مرکزی حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں۔صحافت مملکت کا چوتھا ستون ہے اگر یہ قومی مفادات کے مطابق کام کرتا رہے تو قومی ترقی آگے کو بڑھتی ہے۔ ہماری صحافت ماشاء اللہ آزاد ہے پل پل کی خبروں سے عوام کو مطلع رکھا جا رہا ہے۔حکومت کے غلط کاموں پر بڑے اچھے اور مثبت انداز میں گرفت کی جاتی رہی ہے۔کرپشن کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑے بڑے پروگرام ہو تے رہے ہیں۔حکومت کے گورننس تو مثالی نہیں رہے جس پر کور کمانڈرز اور سپریم کورٹ نے بھی تفتیش کا اظہار کیا تھاپھر بھی ڈھائی سال میں حکومت کا کرپشن میں کوئی بڑا اسکینڈل سامنے نہیں آیا
اس کی تصدیق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپوٹ میں کیا تھا۔اب نیپ نے راولپنڈی اسلام آبادمیٹرو بس میں کرپشن کی تحقیق کے لیے نوازحکومت کے دو اہلکاروں پر گرفت کی ہے۔ حکومت کی ڈھائی سالہ کار کردگی پر میڈیا کی گرفت رہی ہے حکومتی اہلکاروں کو ٹی وی شوز میں بلا کر ان کے کاموں اور اورعوام کے خزانے کے متعلق بعث مباحثے ہوتے رہے ہیں۔ حکومت کی کچھ کچھ خوبیوں کو بھی اُجاگر کیا۔ میڈیا چاہے پرنٹ ہو یاالیکٹرونک جب عوام کی آواز بن جاتا ہے تو عوام حکومتوں کو کرکردگی کی بنیاد پر تبدیل کر سکتی ہیں۔
صاحبو! پاکستانی عوام پاکستان میں قائد اعظم کے وژن کے مطابق اسلام کی فلاعی ریاست کے حصول میں اس سال بھی ناکام رہی۔بلکہ آئینی طور پر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے آئین کے خلاف اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے اعلانیہ سیکولر ہونے کی باتیں ملک کے حکمران کی زبان سے سن کر پاکستان کے عوام دکھوں میں اس سال بھی اضافہ ہی ہوا۔ اسلامی نظام کی خواہش مند، دکھوں ، مصیبتوں،دہشت گردی،لا اینڈ آڈر،مہنگاہی،لوڈشیڈنگ اور سیاست دانوں کی وعدہ خلافی کی ماری پاکستانی عوام کو اس سال بھی میگا پروجیکٹ کی خوش خبری تو ضرور سنائی گئی مگر کوئی بھی فوری خاص ریلیف نہیں ملا۔ہاں سیاست دانوں کی مراعات میں اضافہ ضرور ہوا۔