تحریر : سید توقیر حسین 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت برسراقتدار آئی تو پاکستان ڈیفالٹ کے خطرات سے دو چار تھا اور ملک کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8.8 فیصد تھا جو کم ہو کر رواں سال یہ خسارہ 5.6 فیصد تک آگیا ہے جب کہ آئندہ مالی سال میں بجٹ کا خسارہ 4.3 فیصد تک آجائے گا، وزیر خزانہ بجٹ خسارہ میں کمی کے لئے جو حربہ استعمال کرتے ہیں وہ آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لئے تو درست ہو سکتا ہے مگر معیشت کو حقیقی معنوں میں تقویت نہیں دیتا۔ فیڈرل حکومت ہر سال خسارے کا بجٹ پیش کرتی ہے جبکہ 18 ویں ترمیم کے بعد چونکہ ترقیاتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ صوبوں کی صوابدید پر ہوتا ہے لہٰذا صوبے ترقیاتی بجٹس کو بچا کر سرپلس رقومات مرکزی حکومت کو سود پر قرض دے دیتے ہیں اور اس طرح صوبوں کا سرپلس بجٹ فیڈرل حکومت کے پاس واپس آ کر بجٹ خسارہ کم کر دیتا ہے، دوسرا اسحاق ڈار صاحب کا کہنا ہے کہ ان کی وزارت نے تین سالوں میں ٹیکس گروتھ کو 56 فیصد بڑھایا ہے جہاں انہوں نے بہت ساری اشیاء کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ کو ختم کر کے 300 ارب روپے کی بچت کا مستحسن اقدام کیا ہے مگر وہیں پر جب FBR ان حکومتی اداروں سے بھی ریونیو وصول کر لیتا ہے جو ترقیاتی بجٹس سے چل رہے ہیں تو جب ترقیاتی ادارے پر ٹیکس FBR کو ادا کرتے ہیں تو پھر حکومتی ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ ٹیکسوں کی صورت میں واپس ٹیکسوں کی صورت میں حکومت کو واپس مل جاتا ہے۔ حالانکہ اس کی جگہ اگر FBR حکومتی اداروں کے غیر ترقیاتی فنڈز پر کٹ لگائے اور ان اداروں سے اربوں روپوں کے بجلی، گیس کے واجبات ریکور کرے تو تب بھی ریونیو میں قابل قدر اضافہ ہو سکتا ہے،
معروف ٹیکس ایکسپرٹ شبر زیدی نے اپنی تقریر میں جو قابل ذکر نقطہ اٹھایا وہ یہ تھا کہ اس وقت پاکستان کی حقیقی قومی آمدنی جو پروجیکٹ کی جا رہی ہے وہ 280 بلین ڈالرز ہے جبکہ حقیقتاً یہ 336 بلین ڈالرز ہے اور اگر تمام امیر لوگ اپنی اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹس میں اپنے اندرونی اور بیرونی ممالک میں موجود اثاثوں کو ظاہر کریں اور حکومت 15 فیصد شرح سے ٹیکس وصول کرے تو حکومت کو 50 بلین ڈالرز کا ریونیو مل جائے گا ڈالرز اور روپیہ کی موجودہ شرح تبادلہ کے مطابق تقریباً حکومت کو 5300 ارب روپے کے محصولات مل جائیں گے جبکہ حکومت کی سالانہ آمدنی اور اخراجات کا خسارہ زیادہ سے زیادہ 2000 ارب روپے کا ہے، میرے ایک سوال کے جواب میں شبر زیدی اور ڈاکٹر حفیظ پاشا دونوں نے اس کی تصدیق کی کہ ہماری معیشت میں GDP کا 40 فیصد یعنی 1200 ارب کا کالا دھن ہے جس پر حکومت ٹیکس لگا کر آسانی سے 300 سے 400 ارب روپے حاصل کر سکتی ہے پاکستان کے چار بڑے ادارے واپڈا، ریلوے، پی ا?ئی اے، سٹیل ملز بھی اپنا خسارہ پورا کرنے کے لئے حکومت سے سبسڈی کی صورت میں 500 ارب سے زائد ہر سال حاصل کر رہے ہیں اس پر MCB کے چیئرمین میاں منشا صاحب اور دوسرے صنعت کاروں کا خیال تھا کہ یہ ادارے فوراً پرائیویٹائز کر کے حکومت اپنے اخراجات کم کر کے بجٹ خسارہ پورا کرے انہوں نے اپنی مثال دی کہ انہوں نے 1992ء میں MCB 23 کروڑ میں حاصل کیا اور آج وہ ہر سال حکومت کو 15 ارب روپے سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں اور حکومت کو دس سالوں میں 150 ارب روپے کا ٹیکس دے چکے ہیں ان کے ایک مدح سرا نے کہا کہ اگر ہندوستان ہوتا تو میاں منشا جیسے لوگوں کے نام پر مندر بنائے جاتے میاں منشا کو صرار تھا کہ بنکوں کے قرضوں پر شرح سود کم ہونے سے ان کے منافع جات کم ہو چکے ہیں لہٰذا حکومت ان کے منافع جات پر ٹیکس نہ لگائے،
pakistan
میں نے اسحاق ڈار صاحب کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ آج بھی پاکستان کا بنکنگ سیکٹر بے تحاشا منافع کما رہا ہے کیونکہ KIBOR کی شرح تقریباً 6فیصد سے زائد ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح ایک سے دو فیصد ہوتی ہے اور جب اس میں حکومت کا 8فیصد ڈسکائونٹ ریٹ شامل کریں تو آج ایک قرض خواہ شرح سود 14 فیصد سے لے کر 22 فیصد تک قرض کی سہولت حاصل کرتا ہے جبکہ بنک ڈپازٹرز کو محض 4 سے 5فیصد تک منافع ادا کر رہے ہیں حالانکہ سٹیٹ بنک بار بار ان کو تنبیہ کرتا ہے کہ اکائونٹس پر بہتر شرح سود ادا کریں مگر اس کے باوجود کہ ہمارے بنکس بے تحاشا منافع کما رہے ہیں۔ میں نے وزیر خزانہ کے کان میں سرگوشی کی کہ آپ نے بچت سکیموں پر مختلف سرٹیفکیٹس پر شرح سود زیادہ سے زیادہ 7.80 فیصد اور کم از کم 4فیصد مقرر کر کے غریبوں کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے مشرف کے دور حکومت میں ڈیفنس سیونگز سرٹیفکیٹس پر ایک ڈپازٹر ایک لاکھ پر 1500 روپے تک ماہانہ حاصل کرلیتا تھا جبکہ آج اسے بمشکل 600 روپے مل رہے ہیں اور اگر وہ بہبود سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کار ی کرتا ہے تو زیادہ سے زیادہ اسے ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری پر 700 روپے مل رہے ہیں، ان کا جواب تھا کہ ملک میں افراط زر کم ہوا ہے حالانکہ فوڈ انفلیشن کی بجائے کور انفلیشن کو معیار بنایا جائے جس میں کھانے پینے کی اشیاء کی ریٹیل قیمتوں کے علاوہ بجلی، تعلیم اور گھر کے دوسرے یوٹیلٹی بلز اور کرایوں کو شامل کیا جائے تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کم ہوئی ہے۔
69سال سے یہ سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ بجٹ میں عام آدمی پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے عام آدمی ہی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے کیونکہ وہ جب اشیاء وخدمات کی خریداری کرتا ہے تووہ سیلزٹیکس ادا کرتا ہے۔آج ہرپاکستانی شہری 1لاکھ 15 ہزارارب روپے کا مقروض ہوچکا ہے موجودہ حکومت کے 27ماہ کے دوراقتدار میں غیرملکی قرضوں میں 900 ارب اور مقامی قرضوں میں 1394ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ وزارت خزانہ نے غربت کے لئے جو نیا پیمانہ وضع کیا ہے اس کے مطابق وزیرخزانہ خودیہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی 60فیصد آبادی غربت کی لکیرپر زندگی بسرکررہی ہے ان کی فوکس ماہانہ آمدنی تین ہزارروپے ماہوار ہے۔
Cotton
سابق وزیر خزانہ جناب حفیظ پاشا نے زراعت کی حالت زار پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان میں 80 لاکھ ایسے چھوٹے کسان ہیں جن کے پاس ساڑھے بارہ ایکٹرسے کم قطعہ اراضی ہے اور چونکہ بین الاقوامی منڈی میں 40 سے 50 فیصد تک کپاس اور چاولوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگئی ہے اس لئے ان کی حالت بے حد خراب ہے۔اْن کا کہنا تھا ہمارے ملک میں 60 فیصد ایگروانڈسٹریز میں 25برآمدات میں زراعت کے شعبے سے ہیں۔ ہمارے تجارتی حجم کا 40فیصد زرعی اشیاء پرقائم ہے مگربدقسمتی سے اس کی شرح نمو2.5فیصد تک گرچکی ہے۔ وزیراعظم نے کسانوں کے 340ارب روپے کے پیکیج کا جو اعلان کیا ہے اس میں سے صرف 30ارب کی امداد کسانوں کو دی گئی جبکہ دوسری زبادتی یہ ہے کہ یہ پیکیج صرف پنجاب کے کسانوں کو دیا گیا ہے۔
انڈیا 25 زرعی اشیاء پر سپورٹس پرائس دیتا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ صرف گندم اور کپاس پر دیا جارہا ہے ہمارے ہاں فرٹیلائزر اور دوسرے زرعی مداخل پر ٹیکس نہیں لگانا چاہیے۔ انڈیا میں ان مداخل پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا ہے اس وجہ سے وہاں پر زرعی اشیاء کی قیمتیں ہمارے مقابلے میں 25فیصد کم ہیں۔ پاکستان میں جب تک حکومت کالا دھن کو چھپانے کے ذرائع مثلاً پرائز بانڈز رئیل اسٹیٹ اور بیرونی ممالک سے بھجوائی گئی رقومات پر سیکشن انکم ٹیکس 111(4)کو ختم نہیں کرے گی اور ایف بی آرکی ری سٹرکچرنگ کرکے 20ارب ڈالرز کے کالے دھن کو 15فیصد ٹیکس کی شرح پر سفید کرنے میں کامیاب ہو جائے توکل محصولات میں 1800ارب روپے کا ممکنہ سالانہ اضافے سے پاکستان کی معیشت ڈیٹ ٹریپ سے نکل جائے گی یہی چیلنج وزیرخزانہ کو آنے والے تین سالوں میں ہے۔