تحریر : ڈاکٹر سید صلاح الدین بابر پچھلے کئی سالوں سے لگاتار یہ شکایت آ رہی ہے کہ انٹری ٹیسٹ کا پرچہ قبل از وقت آئوٹ ہو جاتا ہے۔کسی مخصوص اکیڈمی کا نام لینا غیر مناسب ہو گا تاہم وہی مخصوص اکیڈمیاں ہی ہر سال پرچہ آئوٹ کرواتی ہیں۔ انٹری ٹیسٹ کے پرچے تک قبل از وقت رسائی میرٹ کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ اس صورت حال میں محنتی طالب علم رہ جاتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ بورڈ کے نظام کو بہتر کیا جائے۔بورڈ کے نظام کو بہتر کرنے سے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرانے والے مافیا کا بھی خاتمہ ہو گا جو ہر خاص و عام سے لاکھوں روپے بٹور کر معیار اور میرٹ کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ اخباری تفصیلات کے مطابق اس سال پنجاب میں میڈیکل انٹری ٹیسٹ کا پرچہ آئوٹ کرنے میں 2 پرائیویٹ اکیڈمیوں نے فی طالب علم 12 لاکھ روپے تک وصول کیے۔
انہی پرائیوٹ اکیڈمیوں نے پرچہ تیاری کی مد میں والدین کو مجمو عی طور پر 2 ارب روپے کا چونا لگایاہے۔ امسال پنجاب بھر کے سرکاری اور نجی میڈیکل کالجوں میں کل نشستیں صرف 6ہزار405تھیں۔ صوبہ پنجاب جس کی آبادی اعداد و شمار کے مطابق 11 کروڑ ہے ۔ پورے صوبے سے ذہین اور ڈاکٹر بننے کے خواہشمند طالب علموں نے 20اگست کو انٹری ٹیسٹ دیا تاہم مخصوص اکیڈمیز کے طلباء و طالبات قبل از وقت پرچے سے پوری طرح واقف تھے یعنی ہمیشہ کی طرح اس بار پرچہ آئوٹ۔ پولیس ذرائع کے مطابق ڈپٹی کنڑولر صائمہ تبسم اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر جاذب حسین کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے تاہم یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے نئے وائس چانسلر ڈاکٹر فیصل مسعود نے پرچہ آئوٹ ہونے کے بعد عدالتی حکم پر 29 اکتوبر کو پھر سے انٹری ٹیسٹ لینے کا اعلان کیا تھا۔پنجاب کے 13شہروں کے 28مراکز میں 65ہزار طلبہ و طالبات ایک بار پھر انٹری ٹیسٹ میں حصہ لیا۔مجموعی طور پر 65155 امیدواروں نے شرکت کی۔ جن میں 23592 طلبا جبکہ 41563 طالبات شامل تھیں۔ 5500 سے زائد عملے نے نگرانی کے فرائض سر انجام دئیے۔ شہر لاہور میں 8 امتحانی مراکز قائم کیے گئے تھے۔ ٹیسٹ صبح 9 بجے شروع ہوا اور 12 بجے اختتام پذیر ہوا۔ دلچسپ بات یہ کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی ہدایت کے مطابق امیدوارصبح 6 بجے سے ہی امتحانی مرکز پہنچنا شروع ہو گئے۔ ٹیسٹ کے موقع پر سخت سیکیورٹی انتظامات بھی کیے گئے تھے۔ تمام امتحانی مراکز میں دفع 144 نافذ کی گئی تھی۔
وطن عزیز میںپیشہ ورانہ تعلیمی اور تربیتی اداروں میں مجموعی طور داخلہ لینے کے لیے ایک انٹری ٹیسٹ کا رواج چل نکلا ہے۔ حتی کہ اسکول میں داخل ہونے کے لیے بھی داخلہ ٹیسٹ لازمی ہے۔ دیگر ممالک میں یہ رواج کیوں نہیں ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں تعلیمی اداروں کی منصفانہ جانچ پر مکمل بھروسہ کیا جاتا ہے۔ میرا شمار سینئر ڈاکٹر ز اور اساتذہ میں ہوتا ہے اور میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے جنوبی ایشیا،گلف اور یورپ کے ممالک میںاس قسم کے لایعنی ٹیسٹوں کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی البتہ ان کا تعلیمی نظام اور ڈھا نچہ خوب مضبوط ہے۔
ہمارے معاشرے میں چند افراد ایسے ضرور مل جاتے ہیں جو اپنی محنت کے بل بوتے پرآگے نکل جاتے ہیں مگر مجموعی حالت کو نہ گفتہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔بدقسمتی یہ ہے پاکستان میں ڈاکٹرز تو پیدا کر لیے مگر حکومت ان پیشہ ورانہ تعلیم یافتہ افراد کے لیے اتنی نوکریاںمہیا کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے کوالیفائیڈ ڈاکٹرز نے اپنے نجی ہسپتال اور کلینک کھول لیے جس سے انہوں نے خوب دولت سمیٹی وہاں عوام کے لیے شدید پریشانی پیدا ہوئی خصوصاً مالی طور پر غیر مستحکم لوگ پرائیویٹ چیک کی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ ہی مہنگی ادویات خرید سکتے ہیں۔
پہلے پہل ضلع کی سطح پر بورڈ کے پرچے بد عنوانی کے زمرے میں آئے۔ مقامی لوگوں نے اپنی جان پہچان اور با اثر ہونے کی وجہ سے پرچے چیک کرنے والے کا کھوج نکال کر وہ مطلوبہ پرچوں میں نمبر بڑھوا لیتے تھے۔حکومت کو چائیے تو یہ تھا اس بدعنوانی کا انسداد کرتی مگر حکومت نے انٹری ٹیسٹ متعارف کروا دیا جس کا مقصد بورڈ میں اچھے اور نمایاں نمبرز حاصل کرنے کے باوجود ایک اور ٹیسٹ مقصود تھا۔ انٹری ٹیسٹ کو متعارف کروانے کے بعد بورڈ کے نظام اور پرچوں کی چیکنگ کے نظام کو بہتر بنایا۔ اب پرچوں کو دوسرے شہروں بھیجا جاتا ہے۔پرچوں پر فرضی رول نمبرز دیئے جاتے ہیں اور پرچوں کی سینٹر چیکنگ بھی ہو رہی ہے۔ جس میں ایک مقررہ سینٹرپر پر چوں کی جانچ کی جاتی ہے اور وہاں کسی غیر متعلقہ شخص کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔تاہم اثرو رسوخ رکھنے افراد اب بھی کوئی نہ کوئی چور راستہ نکال لیتے ہیںمگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ حکومت نے مجموعی طور بورڈز کی پیپر چیکنگ بہتر کی ہے اور بد عنوانی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
اگر بات ٹیسٹ کی کی جائے تو حکومت چند سال پہلے اس ٹیسٹ کو ختم کرنے کی کوشش بھی کر چکی ہے۔ طلبا اور ان کے والدین کی بھی یہی خواہش ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اکیڈمی مافیا جوہر سال کروڑوں کا بزنس کرتا ہے، اس ٹیسٹ کے خاتمے سے وہ ختم ہو جائے گا۔ روزا نہ پانچ پانچ شفٹیں چلتی ہیں۔ ایک شفٹ میں سینکڑوں کی تعداد میں طلبا ہوتے ہیں اور ایک طالب علم کی کم سے کم فیس ساٹھ سترہزار ہوتی ہے اور اگر کوئی طالب علم یہ سوچے کہ وہ ان اکیڈمیوں کی شائع شدہ کتابوں کو خرید کر خودہی گھر بیٹھ کر تیاری کر لے تو یہ سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ کیونکہ اکیڈمیوں کی کتابیں اور ٹیسٹ بازار میں دستیاب نہیں ہیں بس اسی کو یہ کتابیں ملتی ہیں جو اکیڈمی کی مکمل فیس ادا کرتا ہے۔ تویوں اپنے چلتے کاروبارکو کون بند ہونے دے گا؟
عام طور پر اساتذہ طلبا کو دو سال صرف ایف ایس سی کے امتحانات کی تیاری کرواتے ہیں اور انٹری ٹیسٹ کو ایک ہوا بنا دیتے ہیں۔ طلبا و طالبات سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ایف ایس سی سے فارغ ہو جائیں تو اس کو تیار کرنا شروع کریں گے ۔اصولی طور پر اساتذہ کو چاہیے کہ وہ دو سالوں کے دوران انٹری ٹیسٹ کی بھی تیاری کروائیں تا کہ بعد میں طلبا کو مشکل پیش نہ آئے۔ اس حوالے سے حکومتی نگرانی میں اساتذہ کی ٹریننگ بھی عمل میں لائی جائے تاکہ وہ انٹری ٹیسٹ کو شجر ممنوعہ قرار دے کر بری الذمہ نہ ہوجائیں۔ جس طرح ایف ایس سی کی تیاری گورنمنٹ کالجز میں کروائی جاتی ہے اسی طرح انٹری ٹیسٹ کروانے کے لیے بھی سرکاری بنیادوں پر انتظامات کیے جائیں۔میں ایک میڈیکل کا سینئر پروفیسر ہونے کے ناطے یہ سمجھتا ہوں کہ تعلیمی اداروں کے نظام کو بہتر کیا جائے اور باکردار اور ایماندار افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے تو یقینی طور پر مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔