جہاں طاقت اور چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے اُس دیس میں ہم غلاموں کی سی زندگی گذارنے کے لئے زندہ ہیں۔ آج پاکستان توڑنے والے پاکستان کے سب سے بڑے محافظ ہونے کے دعویدار ہیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ مشرقی پاکستان کی مثال مودود ہے۔ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے منہ میں خاک بلوچستان بھی ہمارے لئے سوالیہ نشان بنا دیا گیا ہے، جس کو ہمارے ہاتھوں سے نکالنے کے ان اسٹیک ہولڈرز نے پورے پورے انتظام کر چھوڑے ہیں۔ جہاں سے بے گناہوں کو اغوا کر کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں نشانِ عبرت کے طور پر ان کے گھر والے کچرا کنڈیوں، ندی نالوں اور بیاڑوں میں پھینک کر ان کو دی جا رہی ہیں۔ جنہیں ہم ملک و قوم کا محافظ مانتے ہیں اور وہ ہیں بھی …. ان کے اندر گھسی چند کالی بھیڑیں ہمارا چہرہ مسخ کر رہی ہیں، یہ لوگ پاکستان کے محافظون کو بھی اپنی کارستانیوں سے دنیا میں بد نام کرنے پر تلے ہوے ہیں۔
آج یہ عالم ہے کہ یہاں پر کوئی سچ نہ بولے کہ اس کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے گی۔ یہ لو گ وہ ہیں جنہیں اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ ہے جو پاکستانیوں کے ٹیکسوں کے پیسے پر پل بڑھ کر ابنہیں ہی نشانِ عبرت بنا نے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ان کے لئے عدالتیں یا ان عدالتوں کے فیصلے کوئی معنی ہی نہیں رکھتے ہیں اگر ان کا بس چلے تو یہ اللہ کے فیصلوں کو بھی نا مانیں!!!بلکہ آئے دن یہ لوگ عدالتی حکموں کی حکم عدولی کرتے رہتے ہیں۔ جرم کرتے ہیں اور آزاد پھرتے رہتے ہیں۔یہ اور ان کے پالتو، لوگوں کو خاکی وردی کے نام سے ، دہشت زدہ کر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، کہ یہ بد طینت لوگ ہمارے معزز ادارے کی خاکی وردی کی کیوں اس قدر بے توقیری کر رہے ہیں؟ جو آواز ان کے کالے کرتوتوں کے خلاف اٹھے گی وہ ہمیشہ کیلئے خاموش کر دی جائے گی”جاگنے والو جاگو مگر خاموش رہو”ہم بولیں گے تو بولو گے بولتا ہے !اس لئے ہم کچھ نہیں بولیں گے اور پھر طاقت کے ایونوں میں ہمارا کیا کام ہے۔طاقت والے جانیں اُن کام جانے۔مگر وطن کی مٹی کو اس طرح ذلیل نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ہی ہمارا سب کچھ ہے۔
گذشتہ ہفتے سے حامد میر ہی ہر چینل کا موضوعِ بحث اور عنوان بنا رہا ہے۔اکثر چینلز پر پروفیشنل جیلسی عود عو د کر آرہی تھی۔کئی لوگ حامد میر سے ہمدردیان اس طرح کر رہے تھے کہ گویا زہریلے نشتر اتار رہے ہوں ۔جن اینکرز کے بارے میں میں نسبتاََ بہتر رائے رکھتا تھا ان کے چہرے بھی میرے سامنے بے نقاب ہوگئے ۔ان میں سے اکثر حامد میر کو دعائے صحت کے انداز میں دل کی گہرائیوں سے منہ بصورِ بصور کر بد دعائیں دیتے دیکھے گئے۔ یہ شعر ان کے حال کے بموجب تھا ”کیا ذراسی بات پہ برسوں کے یارانے گئے پر اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے” جیو کے مخالف میڈیاز پر ایک طوفانِ بے اخلاقی پرپا ہوا ہوا تھا۔ٹیڑے ترچھے منہ بگڑ بگڑ کر گالیوں کی پوچھاڑسمیت ہرقسم کی بد اخلاقی کر رہے تھے۔کوئی نیلی ٹوپی پہنے کوئی خاکی ٹوپی پہنے اور کوئی لال ٹوپی پہنے میڈیا پر آآ کر ا ول فول بکنے میں ایسے مصروف تھے کہ جیسے حامد میرنے بد معاشوں دہشت گردوں کی گولیاں کھا کر کوئی گنا ہِ عظیم کرنے کی ذاتی طور پر جسارت کر لی ہو!!! میرا یہ دعویٰ ہے کہ آج پاکستان میں حامد میر کے پائے کا ایک دو کے سوائے نہ تو کوئی اس عمر کے صحافیوں میںصحافی ہے اور نہ لکھاریوں میں کواکا دُکا کے سوائے ہے کوئی اس جیسا لکھاری ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر جانب سے میر پروفیشنل جیلسی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔لوگ بظاہر حامد میر سے ہمدردی تو دکھا رہے تھے، مگر اُن کی آستینوں کے سانپ ابلا پڑ رہے تھے.. .جب ہی تو لوگ کہتے ہیں محنت کر حسد نہ کر…وارث میر کے بیٹے نے پروفیسر وارث میر کی لاج رکھی ہوئی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ آج صحافت آزاد ہے ؟کسی خوف و لالچ کا شکار نہیں،سچ کہنے والے بہت ہیں۔ریاست کا چوتھا ستون میڈیامضبوط ہے۔نہیں نہیں ایسا ہر گز ہر گز نہیںہے جس دیس میں پتھر بندھے ہوں اور کتے آزاد ہوں ….وہاں کس آزادی کی بات کرتے ہو؟یہاں تو چرب زبانوں اور جھوٹوں کی کھیتیان اُگائی جا رہی ہیں۔یہاں تو خوف سے کانپتے پیروں کے ساتھ، لزرتے ہاٹھوں سے مال بٹوری چل رہی ہے۔آدھا سچ تو کیا پونا سچ بولنے والا بھی کوئی مشکل ہی سے میسر ہوگا۔رہا میڈیا تو اکثر میڈیا مالکان نے کرائے کے ٹٹووں کا کار وبار شروع کیا ہوا ہے۔اس ملک کا بد معاش طبقہ ان کی بولی لگاتا ہے اور بولی سے زیادہ دے دے کر انہیں نہال کر دیتا ہے۔ بعض زرد صحافت کے علمبردار میڈیا پر بٹھائے جانے والے بھاڑے کے ٹٹووں شکل بھی کالی دل بھی کالے منہ ٹیڑھے جہاں سے بات کرتے ہوے جھاگ کی برسات ہورہی ہوتی ہے اوران میں بعض کی چمڑی کے سوائے کچھ گورا ہے ہی نہیں!!! کیسے کیسے لوگ عظمتوں کی دھجیاں اڑانے کے لئے پال لئے گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا زرد صحافت کا ایک نیا دور شروع ہوچکا ہے۔جس میں اپنے بھائی کے گوشت میں انہیں سب سے زیادہ لذت محسوس ہو رہی ہے۔
Hamid Mir
آج کا اینکر اپنے کردار سے برائیوں کا ٹینکر کیوں بن رہا ہے؟ کیا یہ بات تم میں سے کسی نے سوچی ہے۔اگر نہیں تو سوچئے۔ان میں سب تو نہیں مگر ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی موجود ہے جو حق اور سچ کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اس طبقے کو حامد میر کو ا س کے نڈر لہجے اور بے باکی سے شائد شکائت یہ رہی ہے کہ لوگ اس کو اس قدر پسند کیوں کرتے ہیں،اتنی پذیرائی کیوں دے رہے ہیں؟حامد میر کی ساری دنیا میں اس کی اسقدر شناخت کیو ہے؟ کیا یہ کوئی انوکھا اینکر و صحافی ہے جو دنیا کے ہر حصے میں اپنی شناخت رکھتا ہے؟؟؟ہم کہتے ہیں کہ تم بھی سچ کا ساتھ دو ،حق پر سیسہ پلائی دیوار بن جائو ،طاقت سے مت ڈرو!خود سچائی کی طاقت استعمال کرو ،نعرے کی حد تک نہیں بلکے سچائی کے ساتھ مظلوموں کی آواز بن جائو تو پھریکھو قدرت تمہیں بھی کس طرح نوازتی ہے۔تم بھی حامد میر سے بڑے صحافی اور اینکر پرسن بن سکتے ہو۔مگر شرط یہ ہی ہے ”محنت کر حسد نہ کر”کہ حاسد کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا کرتے ہیں۔ان کی قسمت میں حسد کے ساتھ ذلت بھی نصیب ہوتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ صحافت تعلیم کا گیم ہے۔مگر آج ایسا لگتا ہے کہ نقلچیوں کو بھی اس میدان میں گھس بیٹھنے کے مواقع بعض مفاد پرستوں نے فراہم کر دیئے ہیں۔جس کی وجہ سے یہ مشروم تیزی سے جڑیں پکڑ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کا صحافی تو اپنے ہی طبقے کی زبان کاٹنے پر تلا ہوا ہے۔میرے سچ کے مخالف دوستو!صحافت کے راستے میں یہ رفٹ تم جان بوجھ کر نہیں ڈال رہے ہو…. بلکہ اپنی خود غرضیوں اور نادانیوں کے ذریعے ڈال رہے۔تمہارے دشمن تمہیں کبھی اکٹھا نہیں ہونے دیں گے ۔کیونکہ ان کو تمہاری یکجہتی کی طاقت کا اندازہ خوب خوب ہے۔ ان کی بد افعالیوں کی بقا ہی تمہاری نا اتفاقیوں میں ہی ہے۔اگر تم بٹے رہے تو تمہارا دشمن اپنا بے ایمانیوں اور بد معاشیوں کا کھیل کھیلتا رہے گا۔اور تمہیں بھی کبھی سکون کی نیند سونے نہیں دے گا۔یاد رکھو اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر وہ ہی لاٹھی گولی کی سرکار ہو گی جس کی تم میں سے اکثر آرزو کر رہے ہیں۔اُس وقت تم اور تمہارے گریبان ہونگے، اور کوڑے جمال شاہی ہوں گے!!!بڑے شرم کی بات تو یہ ہے کہ کووں میں اتحاد ہے کالے کوٹوں اور کالی وردی اور پیلی وردی میں اتحاد ہے کہ یہ اپنے مجرموں کو بھی پروٹکٹ کرتے ہیں۔ مگر زریداور ان کے حامی اس بردری میں کوئی اتحاد پیدا نہیں ہونے دیں گے!!!زرد صحافت کے یہ بد نماں چہرے سینکڑون صحافیوں کے قتل کے بھی ذمہ دار ہیں۔جو در پردہ ہمہ تن سازشوں میں مشغول رہتے ہیں۔
Journalism
جمہوریت پر شب خون مارنے کے تانے بانے شائد کہیں اَن جانے ایوانوں میں بنے جا رہے ہیں۔سرکاری تنخواہوں پر پلنے کے باوجود لوگ قوم پر یہ احسان جتا رہے ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی کا بہترین دور ملک کی خدمت کو دیا!!! تو کیا میرے بھائی تو نے اس کا معاوضہ اپنی محنت سے کئی گناہ زیادہ وصول نہیں کیا؟اپنی محنت سے کئی گناہ زیادہ معاضے کے علاوہ کیا تونے اپنے قد سے بڑھ کر عزت حاصل نہیں کی تو پھر احسان کس بات کا؟ ؟آج تم لوگوں نے عدلیہ ،وزیر اعظم اور صدرِ مملکت اور ریاست کو اپنا زر خرید کیونکر سمجھا ہوا ہے۔پوری قوم کو شُطر بے مہاروں کو مہار تو ڈالنی ہی ہوگی…..آج مملکت کے ملازم حکومتی رٹ کے درپے دکھائی دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے جمہوری وزیر اعظم کو بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنے پڑ رہے ہیں زر خرید میڈیا اس اُس کے زر خرید بھونپو چیخ چیخ کر بوٹوں کو آواز دے رہے ہیں۔سیانے کہہ رہے ہیں کہیں دور بوٹوں کے کاروبار میں تیزی سے جاری ہے۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com