زرد پتے قسط نمبر١

Zard Patay

Zard Patay

تحریر: عفت بھٹی
اس نے گیلے بالوں کو کنگھے سے سلجھایا اور چوٹی بنا کر پشت پہ ڈالی۔ یکایک اس کی نظر سامنے ماتھے سے ہوتی ہوئی کنپٹی کے پاس چمکتے ہوئے چاندی کے دو تاروں پہ پڑی، ایک لمحے کے لیے اس کی توجہ ان کی طرف ہو گئی اور ماتھے پہ سلوٹیں آ گئیں ، اس نے ہونٹوں کو بھینچ لیا اس کے چہرے پہ ایک تنائو سا پیدا ہوا ابھی وہ آئینے میں نظر آنے والے وقت کے دائو پیچ سے نبرد آزما تھی کہ ایک کرخت سی آواز نے اسے چونکا دیا۔

اب کتنی دیر اور لگے گی مہارانی کو تیار ہونے میں ،غضب خدا کا جوان جہان لڑکیاں بھلا اتنی دیر آئینے کے سامنے کھڑی بھلی لگتیں کیا ؟ بیلا نے ناگواری کے احساس کے ساتھ آواز لگائی آ رہی ہوں اماں ۔ لو بھلا ابھی تیرے باوا آتے ہوں گے ،جا جلدی سے دال بگھار لے اور روٹی ڈال لے میں میں ذرا سعیدہ کا پتہ کر آوئں کل سے بخار میں پڑی ہے،اماں نے چادر اوڑھتے ہوئے دروازے کی سمت قدم بڑھائے ۔اس نے دال کو بگھار لگا کر ۔آنگن میں چارپائیاں بچھائیں ،کسی کے قدموں کی آہٹ نے اسے چوکنا کر دیا۔

Mirror

Mirror

اس نے دوپٹے کو سر پہ جمایا اور دبے پائوں سیڑھیاں چڑھنے لگی۔چھت پہ پہنچ کر اس نے برابر والی دیوار میں سے دو اینٹیں نکالیں اور متجسس نگاہیں دوسری طرف جما دیں ۔عاشر نے کمرے کا تالا کھولا اپنا سامان اندر رکھ کر ایک کرسی لے کے چھت کے صحن پہ براجمان ہو گیا سامنے میز پہ ٹانگیں رکھے ایک کتاب کے مطالعے میں غرق ہوگیا ،مگر عجیب سی بے چینی اس کی توجہ میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی اسے لگا اسے کوئی دیکھ رہا ہے اس نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا اونچی دیواروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا ۔ مگر کچھ تھا مگر کہاں ؟ اچانک اسے ہلکے سے چھینک کی آواز آئی جیسے کسی نے منہ دبا کے روک لی ہو وہ چونکا اور کھڑا ہو گیا اسی لمحے دروازہ بجنے اور دوڑتے قدموں کی آواز آئی ۔کوئی ساتھ والے گھر کی سیڑھیاں پھلانگ کے اتر رہا تھا یکایک دھڑام کی آواز آئی اور ہائے میں مری کی ہلکی سی آواز۔دروازے کی دھڑدہراہٹ بڑھ گئی وہ متجسس ہو کر دیوار کے قریب آ گیا۔

دیوار کافی اونچی تھی ایڑیاں اونچی کر کے اس ایک دھانی لباس میں ملبوس لڑکی لنگڑاتے ہوئے دروازے تک جاتی دکھائی دی اس کی طرف اس کی پشت تھی وہ محض لمبے ناگن کی طرح لہراتے بالوں کی جھلک ہی دیکھ پایا ،ایک خاتون اندر داخل ہوئیں وہ جلدی سے پیچھے ہٹ گیا اس کی نظر دیوار سے نکلی دو اینٹوں پہ پڑی اس کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھر گئی دیکھنے کا معمہ حل ہو چکا تھا۔

Hair

Hair

اس کے ہاتھ تو کام میں مصروف تھے مگر اس اس کا ذہن کہیں اور سفر کر رہا تھا ۔اماں نے بغور اس کا جائزہ لیا کپڑوں کا ڈھیر سامنے رکھے ایک ہی قمیض پہ مسلسل صابن رگڑے جا رہی تھی ۔ہونٹوں پہ مسکراہٹ لیے خود ہی مسکرائے جا رہی تھی ۔اماں اس کی حالت دیکھ کر کھنکاریں ،مگر بیلا کی کیفیت میں کوئی فرق نہ آیا گویا وہ موجود ہوتے ہوئے بھی موجود نہ تھی ۔اری کمبخت قمیص کو پھاڑے گی کیا آدھی صابن کی ٹکیا رگڑ ڈالی اس پہ ،ایک دھاڑ کے ساتھ ایک جوتا بھی آ کر اس کی پسلی میں لگا ۔آں ہاں وہ اپنی خواب کی حالت سے جاگی اور ہڑبڑا کر قمیص پانی کے ٹب میں ڈال دیا ۔اور باقی کپڑے تیزی سے دھونے لگی۔

بیلا کے ابا سو گئے کیاِ؟ اماں نے ساتھ والی چارپائی پہ لیٹے احمد علی کو پکارا۔نہیں کیا بات ہے؟ احمد علی نے کروٹ بدلی اور فاطمہ بیگم کی طرف منہ کر لیا ۔بیلا کی عمر نکلی جا رہی اس سال پورے چھبیس کی ہو جائے گی ۔کہیں رشتے کی بات چلائو ۔اماں نے سرگوشی میں کہا ۔جب کہ ایک طرف سوتی بن کے لیٹی بیلا کے کانوں میں گویا تمام حسیات سمٹ آئیں ۔ہہم میں تمہیں بتانا بھول گیا تھا کل رفیق آیا تھا میرے دفتر اس نے اپنے تایا کے بیٹے کا ہاتھ مانگا ہے۔

احمد علی نے سیدھے ہوکر اٹھتے ہوئے کہا ،اچھا کیسا ہے لڑکا اور کیا کرتا ہے؟گھر میں کون کون ہیں ؟ کتنا کماتا ہے؟ اماں کو گویا ایک ڈھارس ملی اور اسنے بے چینی سے پوچھا۔اری بھلی مانس دم تو لے ۔وہ انکم ٹیکس کے محکمے میں چپڑاسی ہے اپنا گھر ہے دو بہنیں بیاہی ہوئی ہیں ایک بھائی ابھی کالج میں پڑھ رہا ہے ماں ہے باپ پچھلے برس گذر گیا دس مرلے کا مکان اور اپنی موٹر سائیکل ہے ،پر۔۔۔۔۔۔۔۔پر کیا ؟بیلا کے ابا سب ٹھیک ہے تم ہاں کردو لڑکا دیکھا ہے تم نے ؟اماں نے ایسی تیزی سے کہا کہ جیسے رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔

اب احمد علی کی پر انہیں کھلِ رہی تھی ۔احمد علی نے ایک نظر سوئی بیلا پہ ڈالی اور مطمئن ہو کر آہستگی سے بولے پر رنڈوا ہے کماتا خوب ہے پہلی بیوی تین سال قبل فوت ہو گئی ایک بچی ہے چار سال کی۔ہا دوہاجو ہے اماں کے ارمانوں پہ اوس پڑ گئی۔

Dowry

Dowry

پر بیلا کے ابا بیلا بھی کم عمر نہیں رہ گئی اتنے سالوں میں جو رشتے آئے کبھی جہیز اور کبھی کم صورتی کی نظر ہو گئے جوان بچی ہے کل کلاں کو خدا نہ کرے۔۔۔۔ باقی بات وہ دبا گئیں دوپہر کا منظر آنکھوں میں آ بسا ۔اچھا پھر کہتا ہوں کل رفیق سے لے آئے ان لوگوں کو۔احمد علی نے گہری سانس بھری۔بیلا نے گویا سانس روک کے ماں باپ کی گفتگو سنی ۔اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے عاشر کا خوبصورت سراپا جسے وہ دو دن سے خوابوں میں ساتھ لیے تھی چھناکے سے چکنا چور ہو گیا،۔۔باقی آئندہ

تحریر: عفت بھٹی