لندن (جیوڈیسک) برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے حالیہ خلیجی ملکوں کے دورے نے ایرانی حکام کو آگ بگولا کر دیا تھا۔ برطانیہ کی طرف سے شام کے شہر حلب میں ایران نواز ملیشیا کہ ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی مذمت کے بیانات نے ایرانی حکام لندن کے خلاف مزید سیخ پا ہو گئے ہیں۔
ایرانی سرکار تھریسامے کے خلیجی ملکوں بالخصوص بحرین اور سعودی عرب کےدورے کے غم سے باہر نہیں آئی تھیں کہ لندن میں متعین ایرانی اور روسی سفیروں کو دفتر خارجہ طلب کرکے حلب میں وحشیانہ قتل عام کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حلب اور بحرین بارے برطانوی حکومت کے موقف کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے غصے کی بڑھاس نکالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
ہفتے کو علی خامنہ ای نے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں سے ملاقات کے دوران الزام عاید کیا کہ برطانیہ ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کے اصول پر چل رہا ہے۔ یہ بیان دیتے ہوئے سپریم لیڈرخطے میں تہران کی فرقہ واریت کےفروغ کی پالیسیوں بالخصوص یمن اور شام میں طوائف الملوکی پھیلانے سازشوں کو فراموش کرگئے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے برطانوی وزیرخارجہ بوریس جونسن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ خطے کے ممالک کو ایران کی طرف سے درپیش خطرات باعث تشویش ہیں۔
انہوں نے جمعہ کو سعودی عرب کے وزیرخارجہ عاد الجبیر سے ریاض میں ملاقات کی تھی اور ایران کی خطے میں مداخلت پر مبنی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
برطانیہ پر تنقد کرنے والوں میں علی خامنہ کے ساتھ ساتھ اصلاح پسند صدر حسن روحانی بھہ پیش پیش رہے ہیں۔