یمن (جیوڈیسک) بین الاقوامی ترقیاتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ یمن میں جاری جنگ میں عام شہریوں کے خلاف برطانوی اسلحہ کا استعمال بین الاقوامی انسانی حقوق پر مبنی قانون کے خلاف ہے۔ کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ سعودی عرب کو برطانوی اسلحہ کی فروخت اس وقت تک معطل کی جائے جب تک اس بارے میں کی جانے والی تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں۔
سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت، برطانیہ میں انکوائری ٭ ’سعودی عرب نے یمن میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا‘خیال رہے کہ برطانوی دارالعوام کی اسلحہ کی برآمد پر کنٹرول سے متعلق کمیٹی نے برطانیہ کی جانب سے سعودی عرب کو بیچے گئے اسلحے کے یمن میں استعمال پر گذشتہ سال تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
برطانوی دارالعوام کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی بین الاقوامی ترقیاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اس بات کے ٹھوس شواہد ملے ہیں کہ سعودی عرب کو برطانوی اسلحہ کی فروخت بین الاقوامی انسانی حقوق پر مبنی قانون کے خلاف ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اور برطانوی حزبِ اختلاف کے اراکین سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے معاملے کو مختلف مواقع پر ایوان میں اور باہر اٹھاتے رہے ہیں۔گذشتہ برس ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برطانوی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کے اسلحے کی فروخت یمن میں خانہ جنگی کو ہوا دے رہی ہے اور یہ اس کے داخلی قوانین اور یورپی اور عالمی ذمہ داریوں کے خلاف ہے۔
17 دسمبر سنہ 2015 کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے لکھا تھا کہ یہ بات برطانوی حکومت کے علم میں کئی مہینوں سے ہے کہ اس کا سعودی عرب کو فروخت کیا گیا اسلحہ عام شہریوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے دارالعوام میں قائدِ حزبِ اختلاف کی جانب سے اس رپورٹ پر سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس رپورٹ کا جائزہ اسی اندازمیں لیں گے جیسے وہ دوسری رپورٹوں کا لیتے ہیں مگر اس پر انکوائری شروع کرنے سے انکار کیا تھا۔
دوسری جانب اسلحے کی تجارت کے خلاف مہم پر کام کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت نے مئی سنہ 2010 کے بعد سے 27 میں سے 24 ایسے ممالک کو اسلحہ فروخت کیا جن کے بارے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے برطانوی حکومت کو تشویش ہے۔واضح رہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں اتحاد یمن میں گذشتہ ایک سال سے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیاں کر رہا ہے۔