تحریر : فیصل اظفر علوی جمہوریہ یمن یا یمن مغربی ایشیاء میں واقع مشرق وسطیٰ کا ایک مسلم ملک ہے’ اس کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب ہے، اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے’ یمن کا دارالحکومت صنعاء ہے اور عربی اس کی قومی زبان ہے۔ یمن کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے بیشتر عربی بولتے ہیں’مشرق وسطیٰ میں یمن عربوں کی اصل سرزمین ہے’ یمن قدیم دور میں تجارت کا ایک اہم مرکز تھا، جو مصالحوں کی تجارت کے لیے مشہور تھا۔
یمن کی ہمسایہ اسلامی ملک سعودی عرب کے ساتھ طویل سرحد ہونے اور عرب ملک ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی یمن میں سیاسی مداخلت اور اثر و رسوخ ایک عرصے سے جاری ہے، یمن میں اس وقت ایک اندرون خانہ طویل عرصے سے جاری فرقہ وارانہ تنازعہ(جس کی اصل وجہ سیاسی محرومیاں ہیں) کے کھل کر سامنے آنے سے یمن پوری دنیا میں موضوع بحث بنا ہوا ہے، یمن میں جاری تنازعہ میں ایک جانب یمنی حکومت اور دوسری جانب حوثی باغی متحاربین ہیں، یمنی منتخب حکومت کو ہمسایہ ملک سعودی عرب کی ہر طرح کی مدد حاصل ہے جبکہ حوثی باغیوں کا گروہ جو ایک عرصہ دراز تک یمن میں قلیل تعداد میں ہوا کرتا تھا وہ شیعہ مسلک کی ایک شاخ جو کہ خود کو زیدی کہلواتے ہیں ان میں سے ہے، اطلاعات کے مطابق یمن میں فرقہ وارانہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب سعودی عرب نے 1999 ء میں یمن میں موجود سلفیوں اور وہابیوں کو سپورٹ کرنا شروع کیا اور کوشش کی کہ زیدیوں کو بدلاجائے اور وہاں سنی اسلام کی بنیاد رکھی جائے ، جب یمنی زیدیوں نے یہ صورتحال دیکھی تو اس کا مقابلہ کرنے کیلئے انہوں نے اسے مذہبی مسئلہ بنانے کی بجائے اپنی ایک دو سیاسی جماعتیں بنا کر اسے سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات حل ہونے کی بجائے پیچیدگی اختیار کرتے گئے اور دونوں گروہ کھل کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، صورتحال اس وقت انتہائی کشیدہ ہو گئی جب حوثی گروپ نے یمنی دارلحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا اور یمنی صدر اپنی جان بچاتے ہوئے جنوبی یمن بھاگ گئے اور وہاں عدن کو یمن کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کر دیایوں ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے گروہ وجود میں آ گئے جنہوں نے مختلف علاقوں پر اپنا قبضہ کر لیا، ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب نے مختلف ہم خیال اسلامی ممالک کا اتحاد بناتے ہوئے یمن میں حوثیوں کی بغاوت کچلنے کیلئے پر تولنا شروع کر دیئے اور اس میں شمولیت کیلئے پاکستان کو بھی دعوت دی گئی۔
ابتدائی طور پر پاکستانی حکومت نے یمن میں جاری تنازعہ کے بارے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان دونوں اسلامی گروہوں کے درمیان صلح کیلئے اپنی کوششیں کرے گا جبکہ سعودی عرب کی داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے پاکستانی سعودی عرب کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنی فوجیں سعودی عرب بھیج سکتا ہے جس کی پیشکش پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کی ہے۔
Saudi Arabia and Yemen
سعودی عرب کو یمن میں حوثیوں کے بڑھتے ہوئے اسر و رسوخ سے خطرات اس وجہ سے ہیں کہ ایران اور حزب اللہ کھل کر حوثیوں کی حمایت کر رہے ہیں اور انہیں مدد فراہم کر رہے ہیںاگر یمن میں حوثیوں نے تسلط پا لیا تو یمن میں پرو ایران حکومت بن جائے گی جسے سعودی عرب ہمیشہ سے اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے اسی لئے سعودی عرب نے اس تنازعے کو باقاعدہ شیعہ سنی تنازعہ کا رنگ دے دیا اور دیگر ممالک سے اس ضمن میں مدد طلب کی جن میں پاکستان انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے، تجزیہ نگاروں کے مطابق سعودی عرب نے پاکستان کو پچھلے دنوں 5.1 بلین ڈالر کی امداد دی تھی جس کا بدلہ چکانے کا وقت آ گیا اور حالات اسی سمت جا رہے ہیں کہ پاکستان سعوی مفادات کی خاطر اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار نظر آ رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو کس طرح امداد فراہم کرتا ہے، ماہرین کے مطابق پاکستان سعودی فوج کو ٹریننگ دے سکتا ہے اور ہتھیار دے سکتا مزید یہ کہ اپنی فوجوں کو سعودی سرحدوں کی حفاظت کیلئے بھیج سکتا ہے۔
یمن میں جاری تنازعہ در حقیقیت یمن کا اندرونی معاملہ ہونے سے زیادہ سعودی عرب اورایران کا مسئلہ اختیار کر چکا ہے،ایسے حالات میں اگر پاکستان اپنی فوج کو زمینی کارروائی کیلئے یمن میں داخل کرنے کی غلطی کرے گا تو اس کے سنگین نتائج پاکستان کو بھگتنے پڑیں گے کیونکہ براہ راست زمینی کارروائی سے پاکستان کے اپنے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں، ایران اور سعودی عرب دونوں پاکستان کو ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے حوالے سے مطالبات در مطالبات کرتے نظر آتے ہیں، ایرانی حکومت کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ پاکستان کا جھکائو اپنی جانب بڑھا لے جبکہ سعودی حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ پاکستان اس کی مٹھی میں رہے اور سعودی مفادات کی خاطر اپنا کردار ادا کرتا رہے اور اس میں سعودی عرب ایک طویل عرصے سے کامیاب و کامران بھی رہا ہے کیونکہ پاکستانی حکومتوں کو ہمیشہ سعودی عرب کی طرف سے بھاری امداد ملتی رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا سعودی عرب کی طرف جھکائو زیادہ ہے اسی لئے یمنی تنازعے پر پاکستان کا موقف ہے کہ ہم سعودی عرب کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے، دوسری جانب عالمی طاقتیں امریکہ اور بھارت اس تنازعے میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہیں جن کا روز اول سے مقصد یہی رہا ہے کہ اسلامی ممالک کو آپس میں لڑواتے ہوئے عالم اسلام کو کمزور کیا جا سکے، سعودی عرب کی دیگر اسلامی ممالک میں بے جا مداخلت سے تاریخ بھری پڑی ہے اور مصر کے حالات اس کا تازہ اور منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ایسے حالات میں خطے کی سالمیت کو برقرار رکھنے کیلئے پاکستان کو اپنا کردار انتہائی سمجھ بوجھ کے ساتھ ادا کرنا ہوگا، پاکستان سعودی عرب کی سالمیت اور سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنی فوج ضرور بھیجے مگر پاکستانی فوج کی یمن میں براہ راست زمینی کارروائی خطے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرے گی جس کا نتیجہ دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ حالات کشیدہ ہونے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے، پاکستان کو یمن میں جاری تنازعہ کیلئے بطور ثالث اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور یمن میں امن و امان کے قیام کیلئے مصالحت وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے جس کیلئے پاکستان کو غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔