تحریر: حبیب اللہ سلفی وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونیوالے اہم مشاورتی اجلاس میں یمن کی صورتحال کے حوالہ سے چھ اپریل کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوا ہے جس میں اس مسئلہ پر تفصیل سے غوروخوض کیا جائے گا اور اراکین کی رائے لی جائے گی کہ پاکستان کو سعودی عرب کی درخواست پر اپنی فوج بھجوانی چاہیے یا نہیں۔ اس اجلاس میں اراکین پارلیمنٹ کو یمن کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیاجائے گا۔ وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والے اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ایئر چیف مارشل سہیل امان اورپاک بحریہ کے قائم مقام سربراہ ایڈمرل خان حشام بن صدیقی سمیت دیگر عسکری و سیاسی قیادت نے شرکت کی۔اس موقع پر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے دورہ سعودی عرب سے واپسی پر وہاں سعودی قیادت سے کی جانے والی ملاقاتوں میں زیر بحث آنے والے امور سے متعلق بریفنگ دی۔ اجلاس میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی فوج بھجوانے کی درخواست، یمن سے پاکستانیوں کے محفوظ انخلاء اور آئندہ کے لائحہ عمل پر تفصیل سے غوروخوض کیا گیا۔وزیر اعظم نواز شریف نے یمن تنازعہ کے حل کے لئے سفارتی کوششیں بھی شروع کر دی ہیں اور پہلے مرحلہ میں وہ ترکی جائیں گے اور ترک حکام کو پاکستانی پالیسی کے حوالے سے اعتماد میں لیں گے۔
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے دو دن قبل سعودی عرب کا دورہ کر کے وزیر دفاع پرنس محمد بن سلطان اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کی اورسرزمین حرمین الشریفین کے تحفظ کیلئے انہیں ہرممکن مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔خواجہ محمد آصف کی قیادت میں جانے والا وفد جس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز،بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق ندیم احمد، میجر جنرل محمد مجاہد حسین اور میجر جنرل کلیم شوکت شامل تھے ‘کی سعودی قیادت سے ہونے والی ملاقات میں سعودی عرب کے معاون وزیر دفاع محمد بن عبداللہ، مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالرحمن بن صالح، ڈائریکٹر جنرل محکمہ دفاع فہد بن محمد العیسیٰ، بری فوج کے سربراہ میجر جنرل عید بن عواض الشلوی، نیول چیف عبداللہ بن سلطان اور فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل محمد بن احمدنے شرکت کی ۔ یہ ملاقات بہت زیادہ اہمیت کی حامل تھی جس میں یمن کی صورتحال سے متعلق انتہائی اہم فیصلے کئے گئے ۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دفاعی سٹریٹیجک معاہدہ ہے جس کے مطابق یہ بات طے ہے کہ پاکستان یا سعودی عرب میں سے کسی ایک ملک پر اگر حملہ ہوتا ہے تو دونوں ممالک اسے اپنے اوپر حملہ تصور کریں گے اور برادر ملک کا اسی طرح دفاع کیاجائے گا جس طرح اپنے ملک کی سرحدوں کا تحفظ کیاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وفد سعودی عرب کی سرحدوں کے تحفظ کیلئے آخری حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔
Pakistan Army
سعودی عرب کے دفاع کیلئے پاکستانی حکومت اور افواج پاکستان میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حرمین الشریفین کی سرزمین کے تحفظ کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیاجائے گا۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہاجارہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو واضح طور پر پیغام دیا گیا ہے کہ اسے پاکستانی بری، بحری اور فضائی افواج میں سے جتنی تعداداپنی مدد کیلئے درکار ہوگی پاکستان امت مسلمہ کے روحانی مرکز کے تحفظ کیلئے ضرور پیش کرے گا۔ پاکستانی قوم کے ہر طبقہ کی حکومت اور پاک فوج کی جانب سے کئے گئے حالیہ فیصلوں کو مکمل تائید حاصل ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض نام نہاد دانشورمخصوص ایجنڈے کے تحت اس حوالہ سے بھی قوم کے ذہنوں میں انتشار اور خلفشار پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیںاور یمن میں باغیوں کی قوت کچلنے کیلئے جاری آپریشن کے خلاف خوامخواہ کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس سے شیعہ سنی لڑائی کے پروان چڑھنے کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔جب حوثی باغی سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے حامیوں کے ساتھ مل کر مسلح کارروائیاں کر کے یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر رہے تھے ‘ بے گناہوں کا خون بہایا جارہا تھا’ عدن کی جانب پیش قدمی اور سعودی عرب کو نشانہ بنانے کے ناپاک عزائم کا اظہارکیاجارہا تھاتواس وقت ان دانشوروں کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ ایسی باغیانہ سرگرمیوںکے خلاف آواز بلند کی جائے؟ کیونکہ اس سے خطہ میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو گی اور دشمنان اسلام کو اپنے مذموم ایجنڈے پورے کرنے کا موقع ملے گا۔بعض لوگوں کی جانب سے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحانہ کردارا دا کرنا چاہیے اور ایران نواز باغیوں سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یمن میں قطعی طور پر دو ملکوں کی جنگ نہیں ہے وہاں باغی ایک منتخب حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اور سرزمین حرمین الشریفین پر حملوں کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔حوثیوں کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جس طرح پاکستان میں بعض گروہ پاک فوج اور حکومتی اداروں پر خودکش حملے اور بم دھماکے کررہے ہیں۔جب آپ ان سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ماضی میں یہ سب کچھ کر کے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا تو پھر حوثیوں سے مذاکرات کی باتیں کیوں کی جارہی ہیں؟ انہیں بھی طاقت و قوت کے ذریعے ہی کچلنا پڑے گا۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ اس طرح کے باغی کسی ڈھانچے میں فٹ نہیں ہوتے۔ یمن کی جنگ کو ایران اور سعودی عرب کی جنگ نہیں سمجھنا چاہیے۔ سعودی عرب کی تو یمن کے ساتھ اٹھارہ سو کلومیٹر طویل سرحد لگتی ہے۔باغی گروہوں کے اہلکار سعودی سرحد سے دراندازی کی کوشش کرتے ہیں۔ سرحد کے قریب مشقیں کی جاتی ہیں اور حرمین الشریفین کو نقصان پہنچانے کی اعلانیہ باتیں کی جاتی ہیں اس لئے سعودی عرب کو تو اپنی سرحدوں کے دفاع کیلئے ان کے خلاف کارروائی کا پورا حق حاصل ہے تاہم دوسری طرف ایران جس کی یمن کے ساتھ کوئی سرحد موجود نہیں ہے’ وہ اب تک حوثیوں سے لاتعلقی کااعلان کرتا رہا ہے اور کہتا رہا ہے کہ وہ ان کی کسی طرح سے مدد نہیں کر رہا’ اب جب سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد نے ان باغیوں پر حملے شروع کئے ہیں تو اسے اعتراض کیوں ہے؟ اور اسے اس مسئلہ کا فریق کیوں قرار دیا جارہا ہے؟
ایران کوبھی اس صورتحال پر غور کرنا چاہیے اوردیکھنا چاہیے کہ وہ پورے عالم اسلام کے مقابلہ میں بالکل الگ تھلگ کھڑا ہے۔اس وقت کوئی اسلامی ملک اس کے موقف کا حامی نظر نہیں آتا۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کو بھی مسلم دنیا کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اورصلیبیوں ویہودیوں کی سرزمین حرمین الشریفین کونقصان پہنچانے کی سازشوں کو عالم اسلام کے ساتھ مل کر ناکام بناناچاہیے۔یمن میں عرب اتحاد کی بمباری سے خاطر خواہ نتائج ملنا شروع ہو گئے ہیں اور حوثی باغی بوکھلاہٹ میں سعودی عرب اور اس کی اتحادی افواج کو بدنام کرنے کیلئے گھٹیا حرکتوں پر اتر آئے ہیں۔بدھ کو باغیوں نے الحدیدہ شہر میں ایک ڈیری فیکٹری میں گھس کر درجنوں افراد کو قتل کر دیااور حملہ سے قبل فیکٹری پر متعدد راکٹ داغ کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ سب عام لوگ عرب اتحادیوں کی بمباری سے مارے گئے ہیں لیکن آج کل میڈیا کے دور میں ایسی باتوں کو چھپانا بہت مشکل ہو چکا ہے۔
Yemen Rebels
حوثیوں کی یہ سازش کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اس پوری فیکٹری کو باغیوں نے بموں سے اڑا یا ہے کیونکہ جس وقت اس فیکٹری کو بارود سے اڑاکر درجنوں مزدوروں کو زندہ جلایا گیا اور سینکڑوں افراد کو زخمی کیا گیا’اس دورانیہ میں سعودی اتحاد کے طیاروں نے الحدیدہ شہر پر سرے سے کوئی پرواز ہی نہیںکی۔اسی طرح حوثیوں کی جانب سے تین ہسپتالوں پر حملے کئے گئے اور عدن میں مسافر بس روک کر اس میں سوارافراد کو گولیوں سے بھون دیا گیا جس پر بارہ مسافر موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔یمن کے مقامی اخبارات نے تصاویر شائع کر کے ان تمام حقائق کو بے نقاب کر دیاہے کہ باغی کس طرح عام لوگوں کا قتل کر کے سعودی اتحاد کو بدنا م کرنے اور عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ حوثیوں کی یہی وہ حرکتیں ہیں جس سے ناخوش ہزاروں یمنیوںنے تعز شہر میں زبردست احتجاج کرتے ہوئے باغیوں کے خلاف سخت نعرے بازی کی اور عالمی برادری سے ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کامطالبہ کیا ہے ۔بہرحال پاکستان کی جانب سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ خوش آئند ہے یقینا اس اجلاس میں بھی سعودی عرب کے خلاف سازشیں ناکام بنانے کیلئے متفقہ اور مضبوط آواز بلند ہو گی اور پاکستان کو سرزمین حرمین الشریفین کے تحفظ کیلئے فوج بھجوانے سمیت دیگر فیصلے کرنے میں پوری قوم کی تائید حاصل ہو گی جس کے یقینا دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔