یمن (جیوڈیسک) عالمی ادارہ برائے صحت نے انکشاف کیا ہے کہ یمن میں جاری لڑائی کے سبب نصف سے زائد طبی مراکز یا تو مکمل طور پر بند ہو گئے ہیں یا پھر جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سروے کے مطابق یمن کے 16 صوبوں میں تین ہزار 507 طبی مراکز مکمل طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں جو کہ مجموعی طبی مراکز کے محض 45 فیصد ہیں۔
یمن کے 276 اضلاع میں کیے گئے سروے کے مطابق 42 فیصد طبی مراکز میں صرف دو دو ڈاکٹر ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ صحت عامہ کی خدمات نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو زندگی بچانے کی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔
یمن میں گذشتہ 18 ماہ سے صدر منصور ہادی کی افواج اور حوثی باغیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے جبکہ منصور ہادی کی حامی افواج کو سعودی عرب سمیت اتحادی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق اکتوبر کے آخری ہفتے تک یمن میں 7070 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 36 ہزار 818 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یمن میں 20 لاکھ افراد غذائیت میں کمی کا شکار ہیں اور ان میں سے تین لاکھ 70 ہزار وہ بچے بھی شامل ہیں جنھیں غذائیت کی شدید کمی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ صحت عامہ کی خدمات میں شدید کمی کی وجہ سے زچہ اور بچہ کو ابتدائی طبی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔
عالمی ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ بیماریوں کی روک تھام کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہیضہ، خسرہ، ملیریا اور دوسرے وبائی امراض پھیلنے کا خطرہ ہے۔
اکتوبر کے آغاز میں یمن کی وزارتِ صحت نے ہیضے کا مرض پھیلنے کا اعلان کیا تھا اور اکتوبر کے آخر میں ملک کے 10 صوبوں میں ہیضے کے 61 کیسز کی تصدیق ہوئی تھی جبکہ 1700 افراد کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ ہیضے میں مبتلا ہیں۔
اب تک ہیضے سے چار اموات کی تصدیق ہوئی ہے اور دستوں کی وجہ سے جسم میں پانی کی شدید کمی کے سبب 42 افراد مارے گئے ہیں۔