تحریر: عمر فاروق یوسف زئی صوفی ازم نے گذشتہ دو دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے شروع کر دئیے ہیں خصوصاً کویت اور سعودی عرب جیسے ممالک کی مثال سامنے رکھی جائے تو یہ کسی حد تک درست ہے کیونکہ یہاں سلف ازم کا سیاسی کردار ایک سماجی تحریک کے طور پر ابھرا اور اسیسہوا کا نام دیا گیا۔ جب کہ یمن میں سلفیون کے نظریات بظاہر سیاسی رجحانات کی شکل میں آئے۔ در حقیقت ان روحانی رویوں کے فروغ میں مقبل بن ہادی الوادی کا بنیادی کرداررہا ہے جس نے 1980ء کی دہائی کے شروع میں صدا صوبے کے چھوٹے سے قصبہ دماج میں قائم ایک ادارے ‘”ارالحدیث” میں کام کا آغاز کیا۔ الوادی ایک مفتی تھا جس نے 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں سعودی عرب کے مختلف مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کی جن میں مدینہ کی شہرت یافتہ اسلامی یونیورسٹی سرِ فہرست ہے اس نے 2001ئ میں اپنی وفات تک ملک کے حکمرانوں اور مذہبی عمائدین سے قریبی تعلقات استوار رکھے۔ دار الحدیث تیزی سے پھولنا پھلنا شروع ہوا۔ یمن اور دوسرے ملکوں سے آنے والے ہزاروں طلباء تعلیم سے بہرہ ور ہوئے اور ملک کے طول و عرض میں ا س کے ادارے پھیلنے لگے۔ سلف ازم کے مکتب کا بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ سیاسی حکمرانوں سے وفاداری کا عہد پُورا کرو چاہے وہ غیر عادل اور بد دیانت ہی کیوں نہ ہوں۔ یمن کے یہ سلفسٹ چاہتے تھے کہ مسلمان دنگے فساد سے دور رہیں اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کریں انتخابات میں حصہ نہ لیں، مظاہروں اور تحریکوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ ان کے خیال میں وہ حکمرانوں کو مناسب مشورے دے کر حکومت کے سیاسی عمل میں اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔
اس صورتِ حال میں یہ بات واضح ہے کہ یمن کا سلف ازم دوسرے اسلام پسندوں کے روےّوں اور سوچ سے قطعاً مختلف تھا۔ مثلاً اخوان المسلمین کے حوالے سے عبدالمجید الذندائی جس نے وہاں انتخابات کو ممکن بنانے کے لیے کام کیا۔ وہ الوادی کے پیروکاروں کے ہاتھوں بدیانتی اور معاشرتی ناہمواریوں کا موجب بننے پر بدنام ہوا۔ ایک سیاسی سلفسٹ بنیادی طور پر دہشت گردی کی ایسی تمام کارروائیوں کی مخالفت کرتا ہے جس میں بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہو۔ حقیقت میں الوادی 1990ء سے ہی تمام دنیا میں خصوصاً اور یمن میں عموماً جہادی سرگرمیوں کا زبردست نقاد رہا اس نے اسامہ بن لادن کے اقدامات کی بھی مخالفت کی جوکہ اس وقت افغانستان کو جنگ میں دھکیلنے کا موجب بن رہاتھا اور مساجد کی بجائے ہتھیاروں کی زبان میں بات کرتا تھا مزید برآں جنوبی یمن میں اشراکی زعماء کے خلاف بھی منصوبہ بندی میں ملوّث تھا۔ 9/11کے بعد الوادی بھی اس دنیا سے رخصت ہو گیا چنانچہ اب سلفیوں کو اپنی قانونی حیثیت برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ متواتر لوگوں کی نقطہ چینیوں کا مرکز بننے لگے۔ یمن میں زیر عتاب رہنا ا ن کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی ان پر حکومت کے سخت روےّے کے امکانات بھی بڑھتے جارہے تھے۔ سعودی ذرائع ان مفتیوں کے ذریعے جو کہ حکومت کے قریب تھے عسکریت پسندوں کی کارروائیوں پر نقطہ چینی کا آغاز کر چکے تھے۔ ان کے نظریات یمن میں بھی فروغ پانے لگے تھے۔ ان حلقوں نے خاص طور پر سیاسی تنظیموں کو تنقید کا ہدف بنایا ان میں ”اخوان المسلمین” اور چند سیاسی سلفی مثلاً کویتی مفتی عبدالرحمن عبدالخالق اور شام کے رہنے والے محمد سرور زین العابدین وغیرہ شامل تھے جو کہ وہاں سیاسی بے چینی کا باعث تھے اور القاعدہ سے بھی ہمدردی رکھتے تھے۔
Islamic Scholars
اگر وسیع تر تناظر میں یمن کے سلفسٹ کو دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ حکومت یا اس کے اتحادیوں کے خلاف کسی بھی انتہائی قدم یا عسکری مدافعت سے گریز کرتے ہیں۔ سلفیوں کے رہنما ابوالہاشم المرابی جو کہ دہشت گردی کے خلاف خاصا مواد شائع کر چکا ہے اپنے حریف یحییٰ الہجوری کے ہمراہ یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کی 2006ء کی انتخابی مہم میں بھرپور حمایت کرتا رہا اور اس کی ہر حوالے سے مدد کی۔ چند سال پیشتر الوادی کی کرشماتی شخصیت کے مداح ملا محمد الامام نے 2003ئمیں ایک کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے عراق میں امریکہ کے خلاف جہادی سرگرمیوں کی ڈھکے چھپے الفاظ میں مذمت کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ جہاد کی قانونی حیثیت تب ہی تسلیم کی جاسکتی ہے کہ جب یمن کی حکومت اس کا حکم دے۔ جب کہ یمن تو اس دہشت گردی کی روک تھام کی خاطر امریکہ کا اتحادی ہے۔ اس طرح یمن سے جہاد کے لیے عراق میں جانے والوں کو غیر قانونی جنگجو ہی سمجھا جائے گا۔
بعض کیے جانے والے نئے اقدامات کی وجہ سے سلفسٹ نے بغیر کسی ابہام کے یمنی حکومت کے اتحادی ہونے کا ثبوت دیا ہے اپنی قدامت پسندی اور بنیاد پرستی کے فقہی اصول کے باوجود سلفسٹ وفادار اور متوازن طبقے کے طور پر سامنے آئے ہیں کیونکہ انہوں نے تمام تر تخریبی حکمتِ عملی کو مذہبی دلائل سے رد کیا ہے۔یمن میں مزاحمتی حوالے سے سلفیوں کی تحریک کا عمومی طور پر کردار صاف اور شفاف رہا ہے تاہم مشاہدے میں آیا ہے کہ کبھی کبھی اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہوئی وہ بھی اس صورت میں کہ انفرادی طور پر کسی سلفسٹ نے سیاسی یا مذہبی گروپ مثلاً اشتراکی یا صوفیاء کے خلاف کارروائی کا ارتکاب کیا۔
صدا میں قومی فوج اور زیدی باغیوں کی ایک جماعت جس کا سربراہ حسین الحُوتی تھا اور بعد ازاں 2004ئمیں اس کے کسی رشتہ دار کا نام لیا جانے لگا تھا کے درمیان خونریز بغاوت کے بعد سلفیوںکا نام حکومت کے رفقاء میں لیا جانے لگا۔ اس طرح سلفیوں کا مزاحمتی کردار بھی سامنے آیا۔ در حقیقت سلفسٹ زیدیوں کی شناخت کو بدنام کرنے کی خاطر اس کے خلاف بڑھ چڑھ کر کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ وہ پروپیگنڈا کے ذریعے زیدی ازم کو ایران سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں سلفسٹ سنٹر کے دو غیر ملکی طلباء دار الحدیث دماج میں قتل کر دیے گئے جسے زیدی گروپ کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔اس طرح ان افواہوں کی تصدیق ہو گئی کہ سلفسٹ نے جنگ میں یمنی آرمی کا ساتھ دیا تھا جس کا ردِ عمل یہی ہونا تھا۔وسیع تر تناظر میںدیکھا جائے تو سلفیوں کے ملک کی حدود سے باہر جہادی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی مختلف واقعات دیکھنے کو ملے۔ اس ضمن میں ایک واضح مثال 2000ء میں سامنے آئی جب ”الوادی” کی اپنے نظریے کے برعکس انڈونیشیا کے جزیرے مالو کا میں اخوان المسلمین کے مفتی عبدالوہاب الڈے لامی کے ساتھ آمنا سامنا خبروں کی زینت بنا۔ اُس پر 1994ء میں بھی اشتراکیوں کے خلاف جہاد کے حوالے سے لیبل لگ چکا تھا۔
Jihad
اُصولی طور پر ستمبر 2001ء کا واقعہ بھی غیر قانونی تصور کیا گیا جس کی وجہ سے اب تک مسلم دنیا میں خاصا کشت و خون ہو چکا ہے۔ دراصل مغرب اور مسلم دنیا کا آمنا سامنا ایک خاص حقیقت کا حامل رہا ہے۔ سلفیوں کے نقطہ نظر میں جہاد ایک خاص ماحول میں فرض ہے اور جب آپ پر جنگ مسلط کرد ی جائے تو جہاد اس کا جواب ہے۔ تاحال مسلمان اس قابل نہیں کہ وہ ایسا کر سکیں کیونکہ وہ مختلف ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور خاصے کمزور ہیں اور مسلمان حکومتوں نے بھی جہاد کا علم بلند نہیں کیا اس لیے ان حالات میں لڑائی محض فساد کا باعث بنے گی۔ اس تناظر میں محض مغرب کے مفادات پر حملے شاید کچھ حمایت حاصل کر لیں لیکن یہ بھی ایک طویل منصوبہ بندی کا متقاضی عمل ہے۔ نتیجتاً موجودہ تمام سرگرمیاں رفتہ رفتہ ماند پڑتی جائیں گی۔ الوادی نے کئی مواقع پر القاعدہ کی طرح سامراج مخالف تقاریر کیں۔ مثلاً 1996ء میں ایک کانفرنس کے موقع پر اس نے خدا سے التجا کی کہ وہ امریکہ کے خلاف افغانیوں کی مانند ایسی قوم بھیجے تاکہ وہ بھی روس کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے۔ حالانکہ الوادی خود دہشت گرد کہلوانے سے انکار کرتا ہے اور کہتے ہیں کہ وہ تو ٹھیک طرح سے بندوق بھی نہیں چلا سکتا۔ پھر ساتھ ہی انہوں نے اسی کانفرنس کے موقع پر اس بات کا اظہار کیاکہ وہ لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کر رہے ہیںا ور امریکہ کو موردِ الزام ٹھہرایا کہ وہ حکومتوں اور قبائل کی مد د سے قوموں کا کس طرح سے اخلاقی دیوالیہ نکال رہاہے۔ الوادی کا یہ جذباتی اظہار شاید اپنے حامیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے تھا یا پھر شاید آزادی ِ اظہار کا کمال تھا کیونکہ اس طرح کا جارحانہ روےّہ اس کے نظریات سے متصادم تھا۔
یمنی سلفیوں کے شکوک و شبہات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیاسی اور جہادی گروپ محض حکمت عملی میں تفاوت کی وجہ سے جدا جدا ہیں نتیجتاً سیاسی سلفی جنہیں الوادی اور اس کے بعد آنے والوں نے ترتیب دیا یا نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوئے وہ انتہا پسندی کے مخالف ہیں۔ یمن کے مختلف جہادیوں کے خاکوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ کسی مضبوط مذہبی پس منظر کے حامل نہیں تھے۔اور نہ ہی انہوں نے سلفیوں کے سیاسی راستے کو اپنے ارادوں کے لیے اپنایا، البتہ حکومت کے ظالمانہ روےّوں نے لوگوں کے خلاف جذبات کو ابھارا، جیسا کہ فوج سے بھاگے ہوئے ایک فوجی کا بیان ہے جو کہ مختلف حملوں میں ملوث بھی رہا جس میں ستمبر 2008ء میں امریکن سفارت خانے پر حملہ بھی شامل تھا۔ ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا کہ یمن میں جتنی بھی عسکری کارروائیاں ہو رہی ہیں یہ نوجوانوں کی جانب سے اس ظلم و ستم کا ردِعمل ہیں جو ان پر جیلوں میں روا رکھے جاتے ہیں۔ان الفاظ کو نہایت احتیاط سے پرکھنے کی ضرورت ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی پس منظر کس طرح بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو کیا یہ نہیں لگتا کہ سلفسٹ ازم اس نظریے کا سیاسی نقطہِ آغاز ہے جو کہ حکومت کے ساتھ وفاداری پر استوار ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس بڑے کھیل کا حصہ بن جاتا ہے جو کہ بالآخر عسکریت پسندی پر منتج ہوتا ہے۔
Omer Farooq Yusufzai
تحریر: عمر فاروق یوسف زئی Omer Farooq Yusufzai Mechanical engineer University of Engineering and Technology in Peshawar Contact 0304-2358363۔[email protected] 24/A .Block 4, Metroville, Karachi, Sindh, Pakistan./ Puran village near Shangla town, Khyber-Pakhtunkhwa, Pakistan